ڈی این ڈی ٹول فری

قومی راجدھانی خطہ کے لاکھوں مسافروں کو دیوالی کی سوغات دیتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے دہلی۔ نوئیڈاڈائریکٹ (ڈی این ڈی) فلائی وے کو ٹول فری کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ ہائیکورٹ نے 9.2 کلو میٹر لمبے اور 8 لین والے اس فلائی وے پر ٹول ٹیکس کی وصولی پر روک لگادی ہے۔ کورٹ کا حکم فوری طور سے لاگو ہوگیا ہے۔ کورٹ نے کہا کہ ڈی این ڈی بننے میں 408 کروڑ روپے کا خرچ آیا تھا۔ تعمیر کرنے والی کمپنی خود مان رہی ہے کہ 31 مارچ 2014ء تک 810.18 کروڑروپے کی کمائی ہوچکی ہے لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ 300 کروڑ کی وصولی ابھی باقی ہے۔ پیسہ وصولتے رہنے کے باوجود لاگت کیسے بڑھتی جارہی ہے؟ کمپنی کا یہ حساب سمجھ سے باہر ہے۔ جسٹس ارون ٹنڈن اور جسٹس سنیتا اگروال کی بنچ نے کہا کہ ٹول برج کمپنی نے لاگت وصول کرلی ہے لیکن قرار کی شرطوں کے مطابق 100 میں بھی اس کی بھرپائی نہیں ہوگی۔ غلط قرار کا خمیازہ عوام نہیں بھگت سکتی۔ بتادیں کہ فیڈریشن آف نوئیڈا ریزیڈینٹس ایسوسی ایشن نے 2012ء میں اپیل دائر کی تھی۔ چار سال تک چلی لمبی سنوائی کے بعد بنچ نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اپیل کنندہ نے کہا تھا کہ نوئیڈا اتھارٹی نے ایسا قرار کیا ہے جس کی وجہ سے کمپنی غیر قانونی وصولی کررہی ہے۔ چارسال میں 70 سنوائی کے دوران عدالت نے محسوس کیا کہ ٹول کی لاگت سے کہیں زیادہ پیسہ وصولہ جاچکا ہے اس لئے اب عوام سے اور ٹیکس لینے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ یہ ایک طرح کی غیر قانونی وصولی ہے کیونکہ دیش میں ہر جگہ ٹول پلازہ ہیں اور ان کے خلاف عوام کا غصہ بھی ہر جگہ ہے۔ کبھی زیادہ ٹیکس وصولنے کو لیکر پرتشدد مظاہرے کبھی بد انتظامی کو لیکر گھنٹوں جام تو کبھی سڑکوں کے گھٹیا رکھ رکھاؤ آئے دن ہوتے رہتے ہیں لیکن ڈی این ڈی ٹول کا قضیہ اس معنی میں انوکھا ہے کہ جس ٹول کے بننے میں 408 کروڑ روپے خرچ آیا ، اب کمپنی کی دلیل ہے کہ وہ لاگت بڑھ کر 31 مارچ تک 2168 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ گڑ بڑ گھوٹالہ اسی نقطہ پر ہے کہ پیسہ وصولتے رہنے کے باوجود لاگت کیسے بڑھتی جارہی ہے؟ پورے تنازع کی اصلی جڑ ٹول ٹیکس نیتی کی خامی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب سرکار سڑک ، ہائی وے جیسے بنیادی ڈھانچے کے لئے ٹیکس وصولتی ہے تو کچھ سڑکوں کے لئے الگ ٹیکس کیوں؟ اب معاملہ سپریم کورٹ کے پالے میں آگیا ہے۔ سپریم کورٹ نوئیڈا ٹول برج کمپنی لمیٹڈ کی اس اپیل پر سنوائی کے لئے راضی ہوگیا ہے جس میں ڈی این ڈی پر گاڑیوں سے ٹول لینے پر پابندی الہ آباد ہائی کورٹ نے لگائی ہے۔ سپریم کورٹ پر اب سب کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں اور یہ اہم ہے کیونکہ وہاں سے نکلا فیصلہ دیش کے باقی ٹول پلازہ کے لئے نظیر بنے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!