ایک کے بعد ایک تنازعے میں پھنستی جے این یو

دیش کی سب سے مشہور یونیورسٹیوں میں شمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی( جے این یو) ایک بار پھر اپنی نام نہاد حرکتوں کے سبب سرخیوں میں ہے جے این یو کے ناراض طلباء کے ذریعے وائس چانسلر سمیت دیگر حکام کو یرغمال بنانے کے واقعہ نے نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں مٹھی بھر طلباء کے لئے نہ تو دیش کے قانون و اخلاقیات کی فکر ہے اور نہ ہی اپنے بڑوں کے لئے عزت۔ یہ وجہ عام ہوتی جارہی ہیں اس وقت میں اس مشہور تعمیر ادارہ تحریک اورسیاست کا اڈہ بن گیا ہے یہ تشویش کا موضوع اس لئے بھی ہے کہ یہاں عام والدین اور بہتر تعلیم کی خواہش کے لئے طلباء اب جے این یو تحریک کی وجہ سے اس کی ساکھ سے ڈرنے لگیں ہیں کسی کو بھی اس طرح پوری مشینری کو ناکارہ کرنے کی چھوٹ نہیں دی جاسکتی ہیں ۔ وہ بھی جب چانسلر مسلسل اس معاملے کو لے کر پولیس اور انتظامیہ سے رابطے میں ہے اور طلباء کو بھی اس کی معلومات دے رہے ہیں۔ جس طرح سے لاپتہ طالب علم نجیب احمد کو لے کر قریب 21 گھنٹے تک یرغمال بنائے گئے چانسلر سمیت دیگر انتظامی حکام کو بند رکھا اس سے صاف ہے یہاں کے چانسلر کے تئیں عزت ہے اور نہ ہی صبر ۔انہیں یہ سمجھناہوگا کہ چانسلر اور دیگر حکام کو کمرے میں بند کرنے سے ان کا ساتھی نجیب احمد ملنے والا نہیں ہے پچھلے سال بھی ملک کی بغاوت کے معاملے پر جے این یو کے طالب علم سرخیوں میں آگئے تھے۔ دیش بھر میں اس کو لے کر عام طور پر علیحدگی پسندگی جذبہ بھی تیزی سے پھیلا ۔ حال ہی میں یہاں کے کچھ طلباء نے جہاں وجے دشمی پر دیش بھر میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف و حافظ سعید کے چہروں کو راؤن کے پتلوں پر لگا کر جلا یا گیا وہی جے این یو میں این ایس یوآئی نے وزیراعظم نریندر مودی اور بھاجپا پردھان امیت شاہ، یوگورو بابا رام دیو اور نتھو رام گوڑ سے، یوگیہ آدتیہ ناتھ، جے این یو وائس چانسلر سادھوپرگیہ اور آسا رام باپو کے چہرے پتلے لگا کر جلائے گئے تھے۔ ان طلباء کے کہنا تھا کہ ان برائیوں کی علامت مان کر ایسا کیا گیا تھا۔ طالب علم نجیب احمد معاملے کوفرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ ٹھیک ہے طلباء کے درمیان کسی معاملے کو لے کر تلخی اور نظریاتی اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔اس کامطلب یہ نہیں کہ حد سے گزر جانے والی کوئی کرتوت کی جائے۔ اہم یہ ہے کہ جے این یو اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو پھر سے حاصل کریں۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کو سیاست نہ کرتے ہوئے پڑھائی کے علاوہ طلباء میں اس جذبے کو بیدار کرنا ہوگا، جس کے لئے یہ ادارہ پوری دنیا میں مشہور رہا ہے۔ یہ سب کچھ تب ہی ہوپائے گا جب خود یہاں کے طلباء بہتر ماحول کے لئے کوشش کرتے رہیں گے۔ جو طالب علم ملک و بیرونی ملک تک اپنی دانشورانہ نظیر پیش کرتے ہیں پتہ نہیں ایسے دانشور بے فضول کی باتوں میں کیوں پھنس جاتے ہیں؟ فی الحال کو نجیب احمد کی صحیح سلامت برآمدگی پر سبھی کو توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟