اصل جھگڑاٹاٹا گروپ میں ساکھ کا ہے

نمک سے لیکر سافٹ ویئر تک بنانے والی 100 ارب ڈالر کی کمپنی ٹاٹا گروپ نے اپنے چیئرمین سائرس مستری کو برخاست کرنے کی خبر نے سبھی کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ کمپنی کے بورڈ نے چارسال سے چیئرمین کا عہدہ سنبھال رہے48 سالہ مستری کی چھوٹی کرکے ان کی جگہ انترم کمان ایک بار پھر سے رتن ٹاٹا کوسونپ دی ہے۔ چار برس پہلے ٹاٹا گروپ کی کمان سنبھالنے والے سائرس مستری کو ہٹایا جانا جتنا غیر متوقعہ ہے دیش کی ڈیڑھ سو برس پرانے صنعتی گھرانے میں جانشینی کی لڑائی کا عدالت اور کمپنی لاٹریبیونل پہنچ جانا اتنا ہی افسوسناک ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ ٹاٹا سنز کے اندر سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا تھا اور اندر ہی اندر تلخی اتنی بڑھ گئی تھی کہ ٹاٹا بورڈ نے سائرس کو بغیر کوئی نوٹس لئے ایک جھٹکے میں عہدے سے ہٹا دیا۔ ٹاٹا گروپ نے اس فیصلے کی وجہ نہیں بتائی ہے لیکن قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ کچھ عرصے سے کمپنیوں کا کاروبار گر رہا تھا۔ قرضے بڑھ رہے تھے اور سائرس بیمار کمپنیوں کو بیچنا چاہتے تھے۔ بتایا جارہا ہے کہ ان سب کے چلتے گروپ کے سابق چیئرمین رتن ٹاٹا اور سائرس مستری کے درمیان اختلافات ابھرآئے تھے۔ 78 سالہ رتن ٹاٹا نے عارضی طور پر سائرس کی جگہ گروپ کی کمان دوبارہ سنبھال لی ہے اور چار مہینے کے اندر نئے چیئرمین کی تلاش کی جانی ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنا واقعی دلچسپ ہوگا کہ اس مرتبہ ٹاٹا گروپ یا ٹاٹا کنبے سے کسی پر بھروسہ جتایا جائے گا یا پھر سائرس کی طرح کسی باہری آدمی کو لایا جائے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سائرس مستری کو30 برس کے لئے کمان سونپی گئی تھی صرف چار برس میں ٹاٹا سنز کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹا کر بزرگ رتن ٹاٹا کو انترم چیئرمین کا ذمہ دئے جانے سے اشارہ صاف ہے کہ دیش کے اس سب سے پرانے صنعتی گھرانے میں ابھی بھی پرانے اقدار کے لئے آستھابنی ہوئی ہے۔یہ پرانے اصول نہ تو تیزی سے فیصلے لینے کی اجازت دیتے ہیں نہ بزنس کو سمیٹنے کی اور نہ ہی زیادہ مقدمے بازی کی۔ مستری کے کھاتے میں کارنامے ہونے کے باوجود ان کا تیزی سے فیصلہ لینے اور کوئی بڑی کارکردگی نہ دکھاپانے کے سبب انہیں 26 سال پہلے ہی اہم ذمہ داری سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔حالانکہ مستری نے ای کارمس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ڈیجیٹل پلیٹ فارم تیارکیا۔ٹی سی ایس کا منافع دگنا کیا اور ٹاٹا موٹرس والی گاڑیوں کی فروخت میں نئے نئے ماڈل اتارکر اضافہ کیا، لیکن ان سے کئی کام ایسے ہوئے جو کمپنی کے دوسرے منتظمین کو راس نہیں آئے۔ مستری پر کمپنی کے بڑھتے قرض کو کم کرنے کا دباؤ بھی تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے کئی طرح کے بزنس سمیٹنے کا کام کیا۔ اسے کمپنی کے مفاد میں نہیں سمجھا گیا۔103 ارب ڈالر کی کمپنی گروپ پر 24.5 ارب ڈالر کا قرض کافی ہوتا ہے اور اسے کم کرنے کیلئے سائرس نے برطانیہ کے فولاد کاروبارکا جرمن کمپنی تھائسن گروپ سے سودا کرنے کی بات چیت چل رہی تھی وہ ٹاٹا ٹیٹلی اور ٹاٹا جیگوار میں بھی ٹاٹا سنس کی حصے داری گھٹانا چاہتے تھے۔ جبکہ اس کے ٹھیک پہلے چیئرمین رہے رتن ٹاٹا نے کورس گروپ کے ساتھ ان تمام کمپنیوں کو اکوائرکرتے ہوئے ٹاٹا اسٹیٹ کو فروغ دیا تھا۔ کسی بھی کاروبار میں اتار چڑھاؤ کا دور چلتا ہی رہتا ہے۔ رتن ٹاٹا 21 برسوں تک گروپ کے چیئرمین رہے اور کمپنی کے کاروبار میں قریب57 گنا اضافہ کیا۔بیشک ان کی میعاد سب سے بہتر کہی جاسکتی ہے۔ نمک سے لیکر لوہا اور سافٹ ویئر سے لیکر بھاری گاڑیاں بنانے والے ٹاٹا گروپ کا جھگڑا کنبہ جاتی مفادات سے بھی وابستہ ہے۔ اصل میں سائرس مستری اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کی ٹاٹا گروپ میں 30 فیصدی حصے داری ہے۔ لہٰذا وہ اس لڑائی کودور تک لے جاسکتے ہیں۔ مگر عام ہندوستانیوں کے لئے اس جھگڑے کا صرف اتنا مطلب ہے کہ ٹاٹا کی ساکھ بنی رہنی چاہئے کیونکہ اس کا لوہا دنیا مانتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!