32لاکھ کارڈ ہولڈروں میں سائبر سیند ھ ماری
دیش کے بینکوں میں سائبر سیندھ ماری کا معاملہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔خبر ہے کہ بھارت کے 19 بینکوں کے 32لاکھ اے ٹی ایم کارڈ میں گڑ بڑی ہوئی ہیں۔ ڈیبٹ یا اے ٹی ایم کارڈ ہولڈروں سے ٹھگی کے معاملے نئے نہیں ہے مگر منظم طور سے تقریبا 19 بینکوں کے 32 لاکھ کارڈ وں میں گڑ بڑی انتہائی سنگین معاملہ اس لئے بھی ہے کیونکہ یہ بینکنگ نیٹ ورک کی ایک بڑی خامی ہے اور کچھ معاملوں میں یقینی طور سے بینک ملازمین کی ملی بھگت کو اجا کر کرتا ہے یوں تو دیش میں موجود کل ڈیبٹ کارڈ ہولڈروں کی تعداد میں یہ صرف 0.5 فیصدی ڈاٹا چرانے کی بات ہورہی ہیں لیکن اعداد وشمار دیکھیں تو ان کی تعداد 32لاکھ ہے۔ اس گڑ بڑی سے پتہ چلتا ہے کہ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے 6لاکھ گراہکوں کے ڈیبٹ کارڈ منسوخ کردیئے ہیں۔ اور ان کی جگہ نئے کارڈ جاری کریں گے ممکن ہے کہ دوسرے بینک بھی اس تعمیل کریں کیونکہ یہ پوری طرح سامنے نہیں آرہا ہے کہ کتنے گراہکوں کے ڈیبٹ کارڈ سے متعلق ڈاٹا چرایاگیا ہے دیش کی تاریخ کے سب سے بڑے اے ٹی ایم، ڈیبٹ کارڈ جعلسازی کے تار چین سے جڑ رہے ہیں۔ کئی بینکوں کا دعوی ہے کہ ان کے گراہکوں نے اپنے کارڈوں سے چین میں ٹرانزیکشن کی شکایت کی ہے جب کہ ان کے پاس چین کے پاسپورٹ بھی نہیں ہے ۔ 641 لوگوں کے قریب 1.3کروڑ روپئے کی غلط نکاسی کے دعوی بھی کئے جارہے ہیں الیکٹرانک لین دین کی نگرانی کرنے والے ادارے نیشنل پیمنٹ کارپوریشن آف انڈیا کے ایک افسر نے بتایا کہ چین سے گڑ بڑی اطلاع مل رہی ہیں۔ ہم ریزرو بینک اور دیگر بینکوں کے ساتھ مل کر جانچ کررہے ہیں۔ اس درمیان سبھی بینکوں کو مزید سیکورٹی قدم اٹھانے کی صلاح دی گئی ہیں حالانکہ مالیاتی سروس محکمہ میں ایڈیشنل سیکریٹری سی مرو نے بتایا کہ اس سے بہت گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے صرف 0.5 فیصد ڈیبٹ کارڈ پن اور دیگر ڈاٹا چوری ہوا ہے۔ باقی 99.5 فیصد کارڈ پوری طرح سے محفوظ ہے سیدھے طور پر کہا جاسکتا ہے جو بینکنگ سائبر دھوکا دھڑی کا معاملہ سامنے آیا ہے اسے بھی دیش کی سرحد سے باہر ہی انجام دیا گیا ہے۔ دھوکا دھڑی اتنی خطرناک ہوسکتی ہیں ، اس کے بنگلہ دیش میں اسی برس ہوئے ایک واقعہ سے سمجھاجاسکتا ہے جہاں سائبر چوروں نے کہا ہے کہ وہاں کے سینٹرل بینک سے ہیکنگ کر دس کروڑ ڈالر اڑا لئے تھے جس کی وجہ سے وہاں کے سینٹرل بینک گورنر کو استعفی دینا پڑا تھا اور کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ جسے دیش سے اور جس ذریعہ سے ہندوستانی بینکوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اس کی پہچان ہونے کے باوجود سائبر حملہ کرنے والے ایک گروہ تک پہنچنا آسان نہیں ہوگا۔ ہندوستانی بینکوں کو خاص پریشانی یہ ہے کہ منظم طریقے سے انہیں نشانہ بنایاجارہا ہے۔ وہ زیادہ سنگین معاملہ ہے امید کی جاتی ہیں گراہکوں کو ہوئے نقصان کی بینک بھرپائی کریں گے اور مستقبل کے لئے پختہ انتظام کریں گے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں