کیا ایک دیش ایک چناؤ کی تجویز گمراہ کن ہے

سال 2017میں پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لئے ابھی سے بساط بچھائی جانے لگی ہیں۔ سب اپنے اپنے پتے کھولنے لگے ہیں حالانکہ چناؤ کمیشن نے یہ نہیں بتایا کہ بگل کب بجیں گا کیا پانچ ریاستوں کے چناؤ ا یک ساتھ ہوں گے یا الگ الگ؟ ذرائع کے مطابق چناؤ کمیشن اس بار بھی روایت کے مطابق پانچ ریاستوں کا چناؤ ایک ساتھ ہی کرانے کے حق میں ہے۔ لیکن چناؤ کمیشن کاکہناہے کوئی بھی تاریخ طے کرنے سے پہلے سبھی سیاسی پارٹیوں سے بات کی جائے گی۔ ساتھ ہی 15اکتوبر 15نومبر کے درمیان کمیشن کی اعلی سطحی ٹیمیں ان سبھی پانچ ریاستوں کے دورے پر ہیں جہاں چناؤ ہونے والے ہیں بتادیں سال 2012میں اتراکھنڈ میں ایک مرحلہ میں 30 جنوری کو چناؤ ہوئے تھے۔ منی پور میں بھی 28 جنوری کو ایک مرحلے میں ہوئے اترپردیش میں پچھلی بار 2012میں سات مرحلوں میں 4 فروری سے 28 فروری کے درمیان چناؤ کرائے گئے تھے۔ گوا میں ایک مرحلے میں 3مارچ کو اور پنچاب میں ایک مرحلے میں30 جنوری 2012کو چناؤ ہوئے تھے۔ اس لئے پچھلے دنوں ایک نیا سجاھو آیا کہ لوک سبھا اور اسمبلیوں کے چناؤ ایک ساتھ ہونے چاہئے یا نہیں؟یہ اشو پرانا ہے جس پر کئی برسوں کے بحث چھڑی ہوئی ہیں لیکن حال کے دنوں میں یہ قومی تشویش کا باعث بن گیا ہے اس پر نہ صرف ٹی وی چینلوں پر بحث ہورہی ہیں بلکہ مرکزی سرکار بھی دیش کے شہریوں سے ویب سائٹ کے ذریعہ متعلقہ سوالات پر رائے مانگ رہی ہیں۔ مرکزی سرکار کا خیال ہے ایسا کرنے سے کافی پیسہ بچیں گا اور سرکار بلا رکاوٹ کے ترقیاتی کاموں کو آگے بڑھا سکیں گی لیکن ایسا سوال اس کا نہیں ہے بلکہ جواز کا ہے ہمارے آئین میں جو جمہوریت کے لئے فیڈل ڈھانچے کی گارنٹی دی گئی اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا لوک سبھا و ریاستی اسمبلیوں کے چناؤ ایک ساتھ کرانے کی تجویز لاگو کی جاسکتی ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ بھارت میں چناؤ کا انعقاد کرنے میں بہت زیادہ پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ امیدواروں کا سیاسسی پارٹیوں کااور چناؤ کمیشن کو مل کر یہ طے کرناہے بہرحال حقیقت یہ ہے کہ ساتھ چناؤ کرانے کے سلسلے میں جو پیسہ بچانے کی دلیل دی جارہی ہیں وہ اسے سیاسی پارٹیوں و امیدوار وں کا پیسہ بچانے کا نہیں بلکہ چناؤ کمیشن کاپیسہ بچانے کے سلسلے میں ہے۔ دوسری طرف چناؤ جمہوریت کی جیون ریکھا ہے اگر لوک سبھا و اسمبلی چناؤ ایک ساتھ ایک وقت پر ہوتے ہیں تو یہ قدرتی عمل ہے لیکن اگر چناؤ کی تعداد گھٹانے و خرچ کو کم کرنے کے لئے انہیں ساتھ تھوپا جاتا ہے تو یقینی طور سے نامنظور ہوگا کیونکہ اس کامطلب ہوگا کہ جمہوریت اصولوں پر مالی تشویشات کو ترجیح فراہم کرنا آپ کا اپنا خیال ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!