کیا سائیکل پر اکیلے چلنے پر مجبور ہوں گے اکھلیش

تمام کوششوں اور دعوؤں اور بیانات کے باوجود اترپردیش میں حکمراں سماج وادی پارٹی کے یادو خاندان کا جھگڑا ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ 5نومبر کو پارٹی کے قیام کی سلور جوبلی منانے جارہی سپا کے نیتا جنیشور مشر پارک میں منعقدہ پروگرام کے 48 گھنٹے پہلے ہی اکھلیش یادو سماج وادی وکاس یاترا پر نکلنے جارہے ہیں۔ اس بات کااعلان انہوں نے ملائم سنگھ یادو کو لکھے خط میں کیا ہے۔ اپنے نوجوان حمایتیوں پر کارروائی اور پردیش تنظیم نے تبدیلی سے ناراض اب لگتا ہے کہ شاید وزیراعلی نے اکیلا چلو کا رک اختیار کرلیا ہے۔ سپا پردیش پردھان شیو پال یادو کو ایک طرح سے چنوتی دینے کے ا نداز میں 3نومبر سے’’ وکاس سے وجے کی اور ‘‘ اور سماج وادی وکاس یاترا کااعلان کر یہ ظاہر کردیا ہے کہ یادو پریوار میں جنگ جاری ہے کلی طور پر لوگوں کاکہنا ہے کہ وزیراعلی ا کھلیش یادو نے اگر حالات پر کنٹرول نہیں کیا اور ان کی مانگیں نہیں مانی گئی تو وہ نئی پارٹی بھی بنا سکتے ہیں مگر فی الحال وہ کرسی چھوڑنے کی ہمت نہیں جٹا پارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کھل کر بغاوت بھی نہیں کرپارہے ہیں۔ وہ اپنے حمایتیوں کے ذریعے نیتا جی اور ان کے بھائی کو ا لجھائے رکھناچاہتے ہیں دراصل اکھلیش کو اس بات کا ڈر ہے اگر نئی پارٹی کا اعلان کردیا تو ملائم سنگھ ان کو وزیراعلی کے عہدے پر نہیں رہنے دیں گے اور چناؤ ضابطہ لگنے تک شاید انتظار کریں۔ اکھلیش کے پاس ایم ایل اے تبھی تک ہے جب تک وہ وزیراعلی ہے جیسے ہی نیتا جی خود کو وزیراعلی بنانے کی تجویز رکھوائیں گے تو زیادہ تر ممبر اسمبلی اکھلیش کا ساتھ چھوڑ کر نیتا جی کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے کیونکہ نئی پارٹی سے رکس لینے والوں کی تعداد کافی کم ہوگی۔ ا دھر اگر ملائم سنگھ کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں تو ان سب کو ٹھیک کرنے میں لگ جائیں گے جو اس وقت ان کے شیو پال یادو کے خلاف کھڑے ہورہے ہیں اس صورت میں کتنے لوگ اکھلیش کاساتھ دیتے ہیں اس پر بھی شبہ ہے میٹنگ میں جنگ اس وقت شروع ہوئی جب قومی صدر ملائم سنگھ یادو نے اکھلیش کو پارٹی کا صدر کے عہدے سے ہٹا کر اپنے بھائی شیو پال سنگھ یادو اس کرسی پر بیٹھایا سماج وادی پارٹی میں جاری آپسی کھینچ تان کس مقام پر پہنچے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اتنا طے ہے کہ اس پوری قواعد کی بڑی قیمت اکھلیش یادو کے اس وکاس ایجنڈے کو چکانی پڑے گی جس کو لے کر انہوں نے جیتیں ساڑھے چار برس تک اترپردیش میں کام کیا ہے اور جسے بنیاد پر بنا کر اسمبلی چناؤ میدان میں جانے کا سبز باغ پالے ہوئے بیٹھیں ہیں دیکھیں آنے والے وقت اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!