آخر ریتا بہوگنا کانگریس چھوڑ نے پر کیوں مجبور ہوئیں

اترپردیش میں 2017کے اسمبلی چناؤ کی تیاریوں میں سب سے لاچار کانگریس پارٹی ہی نظر آرہی ہیں۔ اس کی یہ حالت اس کے سرکردہ لیڈروں کے ذریعہ پارٹی چھوڑ کر چلے جانے کے سبب ہوئی ہے ویہی کئی لیڈر پارٹی کے گرتے گراف سے پریشان ہو کر اب اس سے کنارہ کررہے ہیں۔ تازہ مثال کانگریس ایم ایل اے و سرکردہ لیڈر ریتا بہو گنا جوشی کی ہے۔سابق ریتا بہوگنا جوشی کے بھاجپا میں شامل ہونے سے پارٹی کو بڑا جھٹکا لگا ہے پارٹی کے حکمت عملی ساز مانتے ہیں کہ ریتا کے جانے سے کانگریس ا صولاً لڑائی ہار گئی ہے اس سے کانگریس کے برہمن کارڈ کی ہوا نکل گئی ہے۔ پارٹی دہلی کی سابق وزیراعلی شیلادیکشت آگے کرکے برہمن کارڈ کھیلا ہے لیکن پردیش کانگریس کی بڑے لیڈروں میں شمار لیڈر ریتا کی پارٹی چھوڑنے سے برہمنوں کے سارے یوپی کا اقتدار چابی حاصل کرنے کے کانگریس کے منصوبوں پر پانی پھیرتا نظر آرہا ہے۔ ریتا کے پارٹی چھوڑنے سے یہ ا شارہ کیاگیا ہے کہ یوپی میں کانگریس صرف پرشانت کشور کے اشارے پر چل رہی ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ صوبے میں کانگریس کی تنظیم تک کا ڈھانچہ تک نہیں بن سکا ہے۔ موجودہ پردیش صدر تو تین مہینے سے ا پنی ٹیم تک نہیں بنائے پائے پارٹی کے لیڈروں کی آپسی گروپ بندی اتنی زبردست ہے کہ پرانی ٹیم کے بھروسہ راج ببر چناؤ میدان میں اترنے کی تیاری کررہے ہیں۔ وہ ان کے بجائے اس نیتا کے تئیں وفاد ار ہے جس نے انہیں عہدہ دیا ہے کانگریس کا کوئی بھی لیڈر یہ نہیں چاہتا کہ کامیابی کاسہرا کسی دوسرے کو ملے۔ صوبے میں پچھلے 27 سال سے اقتدار سے دور کانگریس نے اس بار چناؤ مینجمنٹ کے لئے پرشانت کشور کو چنا ہے صوبے میں راہل گاندھی کے کئی پروگرام کرا کر پارٹی کو سرخیوں میں لے آئے ہیں لیکن اب وہ پارٹی کے ممبران اسمبلی کی نبض کو ٹٹول نہیں پائے اب تو یہ بھی سوال ا ٹھنے لگے ہیں کہ جو اپنے سرکردہ لیڈروں ممبران اسمبلی کی نبض نہ ٹٹول پائے ہوں وہ جنتا کے من کو کیسے جان پائیں گے ؟ بحال اتنا تو طے ہے کہ پرشانت کشور کے ساتھ کانگریس اعلی کمان بھی ممبران اسمبلی کا پارٹی سے نکلنا نہیں روک پارہا ہے کئی نیتا تو پرشانت کشور کے رخ سے ہی ناراض ہو کر پارٹی چھوڑ گئے ہیں خود ریتا بہو گنا نے بھی بھاجپا میں شامل ہوتے وقت پرشانت کشور و راہل گاندھی پر جم کر حملے کئے ہیں کافی دنوں سے ریتا بہو گنا کے کانگریس چھوڑنے قیاس آرائیوں کو تب روک لگی جب وہ دہلی میں بی جے پی ہیڈ کوارٹر میں قومی صدر امیت شاہ کے بگل میں بھگوا چولا پہنے کھڑی نظر آئیں۔ ریتا بہو گنا نے کانگریس چھوڑنے کا من یوں ہی نہیں منایا جس طرح کانگریس یوپی میں ا پنے کھوئی زمین تلاش میں لگی تھی ٹھیک اسی طرح وہ پارٹی میں اپنے آپ کو تلاشنے میں لگی ہوئیں تھیں۔ 67 سالہ ریتا بہو گنا کے خواہشات اس وقت مدھم پڑ گئی تھیں جب انہیں یوپی کی کانگریس کی ٹیم میں جگہ نہیں دی گئی۔ رہی سہی کثر تب پوری ہوگئی جب ایک بھاری امیدوار( دہلی کی سابق وزیراعلی شیلادیکشت) کو لا کر سر پر بیٹھادیا گیا۔سابق سورگیہ وزیراعلی ہیممتی نند بہوگنا کی بیٹی کو یہ راس نہیں آیا کہ اپنے آپ کو زمینی ورکر ماننے والی ریتا کے پاس اب کانگریس چھوڑنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ ریتا سب سے زیادہ دکھی اس لئے تھی کہ پارٹی کے نئے صدر راہل گاندھی اپنے پپو والے بیانوں سے باز نہیں آرہے تھے ۔ پانچ سال تک الہ آباد کی میئر اور لکھنؤ چھاؤنی سے ممبراسمبلی ریتا نے جم کر راہل گاندھی کے خلاف بھڑاس نکالی۔ ریتا جوشی اصلا اب اتراکھنڈ کی ہے ان کا حلقہ الہ آباد رہا ہے ان کے بھائی وجے بہو گنا جو اس وقت بی جے پی میں ہے وہ اترا کھنڈ کے وزیراعلی رہ چکے ہیں۔ ریتا کے بی جے پی میں آنے سے ان دونوں ریاستوں میں ان کے بل پر سیاسی تجزیہ میں فرق ضرور پڑے گا دونوں ہی ریاستوں میں ا گلے برس چناؤ ہونے ہے۔ ریتا جوشی کو بی ایس پی چیف مایا وتی کا کٹر حریف ماناجاتا ہے۔مایا وتی کے خلاف متنازعہ بیان دینے کی وجہ سے ریتا جیل تک جاچکی ہیں۔ بھلے ہی کانگریس کے نیتا اور خاص طور سے راہل گاندھی ریتا بہو گنا کے الزامات سے متفق نہ ہوں لیکن اس میں شبہ نہیں دیش کی اس سب سے بڑی پارٹی کی پالیسی میں کوئی بڑی کمزوری ہے۔ اگر یہ کمزوری دور نہیں ہوئی تو کانگریس چھوڑنے والے لیڈروں کا سلسلہ برقرار رہ سکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟