حاجی علی کی درگاہ میں خواتین کے داخلے کا سوال
شنی شنگھنا پور ترے بکیشور کے بعد اب ممبئی کی جانی مانی حاجی علی درگاہ میں خواتین کے داخلے کو لیکر بمبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ کچھ معنوں میں تاریخی کہا جاسکتا ہے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق خواتین کو درگاہ میں جانے سے روکنا ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بمبئی ہائی کورٹ نے جمعہ کے روز تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے سال2015 سے عورتوں کے درگاہ میں مزار تک جانے پر پابندی کو غیر آئینی قرار دیا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ یہ پابندی آئین میں حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔حاجی علی درگاہ کا معاملہ تو اس لئے بھی دلچسپ ہے کہ وہاں عورتوں کے داخلے پر پابندی پہلے نہیں تھی۔درگاہ میں نہ جانے دینے کا فیصلہ کچھ عرصے پہلے 2012ء میں لیا گیا تھا تبھی سے عورتوں کے حقوق کے لئے لڑنے والی انجمن اس کے خلاف مہم چلا رہی تھی۔ اس بات سے اس حقیقت کی پھر سے توثیق ہوتی ہے کہ جن مذہبی مقامات پر عورتوں کے داخلے پر پابندی ہے وہ روایتی طور سے ہمیشہ سے نہیں تھی۔ یہ بعد میں کسی ایک تاریخی دور میں لگائی گئی۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ حاجی علی درگاہ ہی نہیں بلکہ پورے دیش کے مذہبی مقامات پر مرد ۔عورت امتیاز کے خلاف نظیر بنے گا۔ عرضی پر سماعت کے دوران بمبئی ہائی کورٹ کے جسٹس وی ایم کانڈے اور ریوتی موہت ڈیرے کی بنچ نے آئین میں عورتوں اور مردوں کوملے یکساں حقوق کا حوالہ دیا۔ بنچ کا کہنا تھا جب مسلم خواتین کو ، مکہ مدینہ میں داخلہ دیا جاتا ہے تو حاجی علی میں داخلہ ممنوع کیوں ہے؟کورٹ کے فیصلے کے بعد حاجی علی ٹرسٹ نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے لئے وقت دینے کی مانگ کی تھی اسے قبول کرتے ہوئے عدالت نے فیصلے پر 6 ہفتے کے لئے روک لگادی ہے۔ این جی او بھارتیہ مسلم مہلا سنگٹھن کی صدر نورجہاں نیاز نے حاجی علی میں عورتوں کو داخلہ دینے کی مانگ کو لیکر ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کی تھی۔ اس فیصلے کو مسلم سماج میں حمایت بھی مل رہی ہے اور مخالفت بھی۔ دیوبندی علما نے کہا ہے سماجی اصلاحات کے لئے عورتوں کے داخلے پر پابندی رہنی چاہئے۔ وہیں اسلامی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا عبدالقاسم نعمانی بنارسی نے اس مسئلے کو مفتیوں سے متعلق بتاتے ہوئے کچھ کہنے سے منع کردیا۔ فتوی آن لائن کے انچارج مولانا مفتی ارشد فاروقی نے کہا کہ اسلام صرف مردوں کو ہی قبرستان میں جانے کی اجازت دیتا ہے۔ شریعت میں عورتوں کے قبروں پر جانے کی پابندی ہے۔ جہاں تک حاجی علی کی درگاہ پر عورتوں کو جانے دینے کی اجازت کا معاملہ ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ سماجی اصلاحات کے لئے پابندی برقرا ر رکھنی چاہئے تھی شریعت کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ حاجی علی کی درگاہ صرف تفریح گاہ کے طور پر استعمال ہورہی ہے جس سے اس کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ دوسری طرف مولانا خالد رشید پھرنگی محلی عید گاہ کے امام کا کہنا ہے کہ مرد عورت کو اسلام میں برابر کا درجہ حاصل ہے۔ عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے نہیں روکا گیا ہے۔ اسلام میں قبرستان اور درگاہ پر جانے کے کچھ قاعدے ہیں جن کو ماننا ضروری ہے۔ عورتوں کو چاہئے کہ وہ آزادی کے نام پر اسلامی اصول کو نہ توڑیں۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک اور اہم اشو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ تمام مذہبی اداروں کے قاعدے ہندوستانی آئین کے جذبات کے مطابق ہوں لیکن آہستہ آہستہ ہی صحیح دونوں کے درمیان تال میل بنانا بہت ضروری ہے۔ عرب ممالک اور ساؤتھ ایشیا میں اسلام کا خاکہ الگ الگ ہے۔ ساؤتھ ایشیا میں اسلام کے کٹر ڈھانچے کو مسترد کر اس میں اصلاحاتی رویہ اپنایا ہے یہی وجہ ہے کہ انڈونیشیا، بنگلہ دیش سے لیکر پاکستان تک مسلم خواتین دیش کی لیڈر شپ سنبھال چکی ہیں لیکن اس اصلاحات پر پچھلی دو دہائیوں سے پیدا کٹرتا نے گرہن لگادیا ہے۔ بھارت میں ایک بوڑھی خاتون شاہ بانو اور کیرل کی شامی عیسائی سماج کی خاتون میری رائے کو سپریم کورٹ کی طرف سے گزارا بھتہ دئے جانے کی مخالفت کے لئے پورا مسلم اور عیسائی سماج کھڑا ہوگیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کٹرتا اور اصلاحات پسندی کی اس لڑائی میں اسلامی ناری واد کس حد تک کامیاب ہوتا ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں