کیا لیڈروں کو کچھ بھی بولنے کی چھوٹ ہے

سپریم کورٹ نے پیر کو بلند شہر گینگ ریپ کو سیاسی سازش بتانے والے اترپردیش کے وزیر اعظم خاں کے بیان کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ ان کے اس بیان پر متاثرہ خاندان نے اعتراض جتایا اور معاملے کی سماعت کرنے کیلئے مقدمے کو یوپی سے باہر منتقل کرنے کی اپیل کی تھی۔سماعت کے دوران جسٹس دیپک مشرا اور سی ۔نگپن کی بنچ نے یہ جائزہ لینے کے بعد فیصلہ لیا کہ اگر اقتدار میں بیٹھے کسی شخص کے بیان سے متاثرہ کا سسٹم سے بھروسہ ڈگمگاجائے تو کیا اس پر مقدمہ چلنا چاہئے یا نہیں ؟ عدالت نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کیا ایسا بیان بولنے و اظہار رائے کے اختیار کے دائرے سے باہر تو نہیں ہے؟ بنچ نے پوچھا کیا وزیر کا یہ بیان بھی اظہاررائے کی آزادی ہے؟ یا سمجھیں کہ آئین میں یہ اختیار دینے کے اصول ناکام ثابت ہوئے؟ حالانکہ کورٹ کا یہ تبصرہ صرف اعظم خاں پر ہی نافذ نہیں ہوتا بلکہ اقتدار کے قریبی کئی لوگ بھی اس ریمارکس کے زد میں ہیں۔ اعظم خاں نے2 اگست کو کہا تھا کہ چناؤ قریب ہیں بے چین اپوزیشن پارٹیاں سرکار کو بدنام کرنے کیلئے کس حد تک گر سکتی ہیں۔ بلند شہر کا واقعہ سیاسی سازش کا نتیجہ ہے۔ جب کورٹ کی پھٹکار لگی تو اعظم بولے میں نے ایسا کیا کہا جو اعتراض آمیز تھا؟ ہمارا تو فرض بنتا ہے کہ واردات کے پیچھے کی سچائی کا پتہ لگائیں اور بدفعلی کرنے والوں کو تو اسلامی قانون کے تحت پتھر مار مار کر ہلاک کردینا چاہئے۔اقتدار کے قریبی تینوں پارٹیوں کے لیڈروں کی بولنی کی آزادی کی نظیر دیکھئے دہلی کے بھاجپا ایم پی ادت راج کہتے ہیں کہ جمائیکا کے ایتھلیٹ عسین بولٹ بے حد قریب تھے، بعد میں انہوں نے ٹرینر کی تجویز پر دونوں وقت بیف کھانے کی صلاح پر عمل کیا تب اولمپک میں وہ 9 طلائی تمغے جیتے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ عسین بولٹ کیا کھاتے ہیں؟ کیا وہ بولٹ کے باورچی ہیں۔ اگر ان کی بات صحیح ہے تو پاکستان میں تو سب بیف کھاتے ہیں وہاں تو ایک بھی میڈل نہیںآیا۔ مرکزی سرکار کے وزیر ثقافت مہیش شرما کیا کہتے ہیں سنئے: ہم نے غیر ملکی سیلانیوں کیلئے ویلکم کٹ بنائی ہے اس میں کیا کریں کیا نہ کریں کی لسٹ ہے، جیسے چھوٹے شہروں میں اکیلے نہ گھومو، اسکرٹ پہن کر نہ گھومیں وغیرہ وغیرہ۔ بنچ نے چار سوال پوچھے کیا سرکار جو شہریوں کے حقوق کی محافظ ہوتی ہے اسے اس طرح کا بیان دینے کی اجازت دی جانی چاہئے؟ جس سے کہ متاثرہ کا سسٹم سے بھروسہ اٹھ جائے؟ کیا ایسے میں متاثرہ فریق منصفانہ جانچ کی امید کرسکتا ہے؟ سرکاری عہدوں پربیٹھا شخص یا اتھارٹی یا سرکار کا انچارج آبروریز یا قتل جیسے گھناؤنے جرائم کو سیاسی سازش بتا سکتا ہے ، خاص کر تب جب اس کا اس جرم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس طرح کا بیان اظہار رائے کے حق کے دائرے میں آتا ہے یا حد سے باہر ہے؟ کیا اس طرح کا بیان آئینی ہمدردی اور حساسیت کو ناکارہ کرتا ہے ؟ بنچ نے ان سوالوں پر سالیسٹر نریمن کو مدد دینے کے لئے کہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!