پہلی مرتبہ محبوبہ مفتی کے ایسے تیور دیکھے

کشمیرمیں بحالی امن کیلئے مرکزی سرکارکتنی سنجیدہ ہے اس سے پتہ چلا ہے کہ پچھلے ڈیڑھ مہینے میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ دوسری مرتبہ یہاں دورہ پر گئے۔ امن بحال کرنے کیلئے یہ ضروری تھا کہ راجناتھ وہاں کے لوگوں سے سیدھے مخاطب ہوں۔ 300 سے زیادہ لوگوں سے بات چیت میں یہ عام رائے ابھر کر سامنے آئی کہ مٹھی بھر گمراہ لوگوں کو چھوڑ کر وہاں کی عوام امن چاہتی ہے۔ اچھی بات ہے کہ راجناتھ نے بھی مرکز کی طرف سے دوہرایا کہ حکومت کشمیریت ،جمہوریت اور انسانیت کے دائرے میں بات چیت کے لئے عہد بند ہے لیکن سب سے اچھا موقف وزیر اعلی محبوبہ مفتی کا رہا۔ جموں وکشمیر کی راجدھانی سرینگر میں بیٹھ کر وزیر اعلی نے جو کہا اس کی آواز پورے کشمیراور پیغام پاکستان تک پہنچ گیا۔ 1999ء میں پی ڈی پی بنانے کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ جب محبوبہ نے علیحدگی پسندوں و دہشت گردوں کے خلاف اتنے تلخ تیور دکھائے۔ پریس کانفرنس میں جب ان سے فائرننگ میں بچوں کی موت پر سوال پوچھے گئے تو محبوبہ نے کہا کہ کرفیو کے دوران کیا یہ بچے دودھ اور ٹافی لینے پولیس تھانے، آرمی کیمپ پہنچتے ہیں؟ انہی ڈھال بناکر وہاں لایا گیا تھا۔سوال جواب کے دوران جب ایک صحافی نے وزیر داخلہ سے پچھلی عمر عبداللہ حکومت کا موجودہ محبوبہ مفتی سرکار سے موازنہ کرنے کے بارے میں پوچھا تو محبوبہ نے راجناتھ کو جواب دینے سے روکتے ہوئے کہا سر آپ رک جائیے ،آپ انہیں نہیں جانتے ،انہیں میں جواب دیتی ہوں۔ محبوبہ نے کہا کہ ریاست میں 95 فیصد لوگ امن چاہتے ہیں صرف 5 فیصد لوگ ہی پتھر اٹھا کر ماحول بگاڑ رہے ہیں۔ پتھراؤ سے کوئی مسئلہ ٹھنڈا نہیں ہونے والا۔ محبوبہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ2010ء میں جو ہوا اس کی وجہ تھی تب ایک نقلی مڈ بھیڑ ہوئی تھی ، تین شہری مارے گئے تھے اس کے بعد جوانوں پر شوپیاں میں آبروریزی اور قتل کے الزام لگے تھے۔ تب لوگوں کے غصے کی وجہ تھی لیکن اب تین دہشت گرد مارے گئے ہیں اس میں سرکار کی کیا غلطی ہے؟ ہمیں بات چیت سے مسئلہ حل کرنے والوں اور بچوں کے ہاتھ پتھر پکڑوانے والوں میں فرق کرناہوگا۔ پریس کانفرنس میں محبوبہ اتنے غصے میں تھیں کہ انہوں نے 21 منٹ کے بعد پریس کانفرنس ہی ختم کردی۔ اس دوران محبوبہ نے 34 بار انگلی اٹھا کر دہشت گردوں کو آگاہ کیا۔ راجناتھ نے تین بار محبوبہ کو خاموش کرنے کی کوشش کی۔ دو موقعوں پر راجناتھ کی بات بیچ میں کاٹ کر خود بولنے لگیں۔ ایک بار تو صحافیوں پر غصہ ہوتے ہوئے خاموش رہ کر وزیر داخلہ کی بات سننے کی ہدایت دے ڈالی۔ محبوبہ نے دو ٹوک کہا کہ مرکز اور ریاستی حکومت پرامن طریقے سے مسئلے کا حل چاہتی ہے۔ واجپئی نے کہا تھا کہ ہم انسانیت کے طریقے سے حل چاہتے ہیں۔ ہم بھی اسی راستے پر چلنا چاہتے ہیں۔ جب سے پی ڈی پی ۔ بی جے پی حکومت بنی ہے ہم نے محبوبہ کے اتنے تلخ تیور پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ اس کے پیچھے کچھ وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔ کشمیر میں گورنر رول کا بھی تذکرہ ہے محبوبہ کی سرکار اگر جاتی ہے تو پھر چناؤ جیتنے کا امکان کم ہے۔ دو بڑے وزیر نعیم اختر ، حسیب درابو اس مسئلہ پر ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ مفتی کی موت کے بعد پی ڈی پی کمزور ہوئی ہے۔ پی ڈی پی نے اپنے حمایتی تب کھو دئے تھے جب بھاجپا کے ساتھ اتحاد کیا۔ اگر محبوبہ گرم تھیں تو راجناتھ نرم تھے۔ پریس کانفرنس میں راجناتھ سنگھ نے کہا کہ سال2010ء میں کہا گیا تھا کہ پیلیٹ گن غیر خطرناک ہتھیار ہے اس سے کم نقصان ہوگا لیکن اب ہمیں لگتا ہے اس کا کوئی متبادل ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا پیلٹ گن کے متبادل پر غور کرنے کے لئے ایک ماہر کمیٹی بنائی گئی ہے جو دو تین دن میں اپنی رپورٹ دے گی۔ اس کے بعد ہم پیلٹ گن کا متبادل دیں گے۔ ہمیں یہ سمجھ نہیں آیا کہ راجناتھ سنگھ اتنے نرم رخ کیوں اپنا رہے ہیں؟ جب محبوبہ کہہ رہی ہیں کہ بچے ٹافی لینے نہیں جاتے تو مرکز کو پیلٹ گن پر صفائی دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر پتھر بازی رکی ہے تو وہ اس پیلٹ گن کی وجہ سے ہی رکی ہے۔ مرکز کو پیلٹ گن کا ڈر برقرار رکھنا چاہئے اور محبوبہ کے نئے تیوروں کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!