وزیر اعظم کے ذریعے اگلے تین اولمپک کیلئے ٹاسک فورس تشکیل کا خیر مقدم ہے

ہم وزیر اعظم کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ 2020،2024 اور 2028ء میں ہونے والے اگلے تین اولمپک کھیلوں میں ہندوستانی کھلاڑیوں کا شاندار مظاہرہ یقینی کرنے کے مقصد سے مفصل حکمت عملی منصوبہ بنانے کیلئے ٹاسک فورس کی تشکیل کی جائے گی۔ یہ ٹاسک فورس دیش میں کھیل سہولیات ،کھلاڑیوں کی ٹریننگ، سلیکشن اور دیگر متعلقہ معاملوں میں مجموعی حکمت عملی تیار کرے گی۔ اس ٹاسک فورس میں گھریلو ماہرین کے علاوہ باہری لوگوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ اس ٹاسک فورس کی تشکیل کچھ دنوں میں ہی ہوجائے گی۔ اگر کوئی کہے کہ ہندوستان ریو اولمپک میں سب سے پھسڈی دیش رہا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ بھارت میڈل جیتنے والے ملکوں کی ٹیلی میں 67 ویں پائیدان پر رہا۔ بھارت نے ایک سلور اور ایک تانبے کا میڈل جیتا لیکن سوا ارب سے زیادہ آبادی والا بھارت فی شخص کے لحاظ سے دو میڈلوں کے ساتھ ریو میں میڈل جیتنے میں 87ویں مقام پر ہے۔ 24 ویں اولمپک کھیلوں میں حصہ لیکر بھارت محض 28 میڈل ہی جیت پایا۔ اس سے زیادہ میڈل تو امریکی تیراک مائیکل فنلپس اکیلے ہی جیت چکا ہے۔ ریو اولمپک کا سب سے بڑا ستارہ شاید اسین بولٹ ہے۔ بولٹ نے اپنے تیسرے اولمپک میں بھی100 میٹر 200 میٹر اور 400 میٹر ریلے میں گولڈ میڈل جیت کر ثابت کردیا کہ وہ اور جمیکا دنیا میں رفتار کا شہنشاہ ہے۔ بولٹ یادیگر اچھے کھلاڑیوں پر نظر ڈالی جائے تویہ آسانی سے سمجھ میں آتا ہے کہ ایتھلیٹس کی دنیا میں سیاہ فاموں کا بول بالا ہے۔سیاہ فام لوگ اگر کھیل کود کے میدان میں بالادستی بنائے ہوئے ہیں تو ویٹ لفٹنگ ، جیپلنگ وغیرہ جیسے کھیلوں میں یوروپی یا یوروشیائی نسل کے گورے کھلاڑیوں کا دبدبہ ہے۔ اسی طرح ایشیائی کھلاڑیوں کی بالادستی بیڈمنٹن یا ٹیبل ٹینس میں تو ہے ہی لیکن ٹینس میں زیادہ تر گورے کھلاڑی ہی چھائے ہوئے ہیں۔باسکٹ بال میں گورے کھلاڑیوں کا جلوہ ہے لیکن فٹبال میں یوروپ اور لاطینی امریکہ کی ٹیموں کا ہی بول بالا ہے۔ ہندوستانی پہلوان عام طور پر نچلے وزن کے مقابلوں میں کافی کامیاب ہیں لیکن ہیوی ویٹ یا مڈل ویٹ میں کامیاب ہندوستانی پہلوانوں کا نام یاد آنا مشکل ہے۔ مکے بازی میں بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ ہاکی میں ہم لوگ فی الحال پچھڑ رہے ہیں لیکن یہ ماننا ہوگا کہ ہندوستانی یا پاکستانی جیسے ہاکی کھیلتے ہیں ، اس کا جواب نہیں ہے۔ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس کی ایجاد غلطی سے انگلینڈ میں ہو گئی تھی۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ جن لوگوں کی بنیادی جگہ مغربی افریقہ ہے وہ لوگ چھوٹی دوری کی فراٹے دار دوڑ میں تو ماہر ہیں ہی لیکن لمبی دوری کی فراٹے دار دوڑ میں وہ کہیں نہیں ہیں اس کے برعکس کینیا یا ایتھوپیا جیسے نارتھ یا مشرقی افریقہ کے کھلاڑیوں کی لمبی دوری کی دوڑ میں بالادستی ہے، لیکن چھوٹی دوری کی دوڑ میں یہ ندارد ہیں۔ ان افتراق کی وجہ کافی حد تک الگ الگ علاقوں کے لوگوں کی جسمانی بناوٹ میں ہے ، جو ہزاروں برسوں سے کسی خاص طرح کے جغرافیائی ، آب و ہوا اور سماجی کلچر ماحول سے بنتی ہیں اور جسم کی نسوں میں موجود جینس میں درج ہوجاتی ہیں اس لئے افریقہ سے ہزاروں میل دور جمیکا میں بسے مغربی افریقی نژاد اسین بولٹ اور ان کے ساتھی اب بھی چھوٹی دوری کی دوڑ میں اپنی بالادستی بنائے ہوئے ہیں۔ صلاحیت کو مشق اور ٹریننگ سے تراشنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اسکول سطح سے ہی خاص اہلیت رکھنے والے بچوں پر توجہ دینی چاہئے۔ ان کھیلوں میں زیادہ توجہ مرکوز کرنی ہوگی جن میں پچھلی فرفارمینس اچھی رہی ہوں۔ ٹریننگ کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کے عادی رہنے کی سہولت بھی دینی ہوگی۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ بھارت کو امریکہ، برطانیہ و چین میں اولمپک تیاری کی کیا منصوبہ حکمت عملی ہے؟ یہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس طرف توجہ دی ہے۔ امید کرتے ہیں کہ اگر منصوبے پر سنجیدگی سے عمل درآمد ہوگا تو مستقبل میں بہتر نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!