اندرا گاندھی ایئر پورٹ کا گولڈ تھیف

دہلی اندرا گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے تقریباً100 کلو سونا غائب ہونے کی چونکانے والی خبر آئی ہے۔ اتنا تو طے ہے کہ اس چوری میں ملی بھگت ضرور ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر یہ گولڈ تھیف ہے کون؟ کیسے وہ اتنی آسانی سے اتنی مقدار میں سونا غائب کرسکتا ہے؟ کیا وہ محکمہ کسٹم کا کوئی افسر یا ملازم ہے؟ یا پھر ایئر پورٹ اسٹاف بھی اس میں شامل ہے؟ جس طرح سے ایک کے بعد چار وارداتیں سامنے آئی ہیں ان سے صاف ہے کہ اس میں بہت بڑی سازش ہے۔ پولیس کے سامنے چیلنج ہے کہ 34 سال کا ریکارڈ کھنگال کر اس معاملے کو سلجھائے۔ خود محکمہ کسٹم بھی یہ طے نہیں کرپا رہا ہے کہ آخر کار اتنا بڑا گڑ بڑ گھوٹالہ کیسے ہوا؟ آئی جی آئی ایئر پورٹ پر پچھلے کچھ عرصے سونا چوری کے چار معاملے سامنے آچکے ہیں۔ ان میں قریب90 کلو سونا چوری ہونے کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک ایف آئی آر کچھ دن پہلے درج کی گئی جس میں 59 کلو سونا غائب ہونے کی بات کہیں گئی ہے۔ پولیس کے مطابق جس طرح سے چوری کی واردات کو انجام دیا گیا ہے اس میں کوئی باہری آدمی شامل نہیں ہوسکتا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ سارا سونا کسٹم ضبط کرکے ویئر ہاؤس میں رکھا ہوا تھا۔ اس میں کسی باہری شخص کی اینٹری ناممکن ہے۔ شعبہ جاتی ذرائع کے مطابق کافی عرصے سے یہ سونا چوری چل رہی ہے۔ سال2014ء میں کسٹم ویئر ہاؤس سے پہلی بار سونا چوری ہوا تھا۔ سال2015ء اور 2016 ء میں دورا ور معاملے سامنے آئے تھے۔ ان واقعات میں قریب 24 کلو سونا چوری ہوگیا تھا جس کی قیمت 7 کروڑ روپے تجویز کی گئی تھی۔ تازہ معاملہ 59.612 کلو کی چوری کا ہے ۔
آئی جی آئی تھانہ پولیس نے 18 جولائی کو مقدمہ درج کیا ہے۔ چوروں نے پیکٹ میں سیل بند سونے کے بسکٹ کو کسی دوسری دھات سے بدل دیا۔ کچھ پیکٹ سے گھڑی، ڈالر اور یو اے ای کی کرنسی برآمد ہوئی ہے۔ کسٹم کے ذرائع نے بتایا کہ ایئر پورٹ پر اسمگلروں سے برآمد سونا و قیمتی سامان کو کیس پراپرٹی کی شکل میں ٹرمنل نمبر 3 میں قائم کسٹم کے اسٹرانگ روم میں رکھا جاتا ہے۔ وہاں 30 برس سے قریب 3 ہزار سیل بند پیکٹ میں 900 کلو گرام سونا رکھا ہوا ہے۔ جس اسٹرانگ روم میں سونا رکھا گیا ہے وہ ٹرمنل بلڈنگ کے اندر ہونے سے پوری طرح محفوظ ہے۔ شعبہ جاتی سطح پر بھی سونے کی سکیورٹی کا پختہ انتظام ہے۔ اس کی چابی کسٹم کے افسران کے پاس ہوتی ہے۔ ان کی موجودگی میں ہی اسٹرانگ روم میں کوئی داخل ہوسکتا ہے۔ حالانکہ چوری کے بعد پولیس نے وہاں مزید سی سی ٹی وی کیمرے لگوائے ہیں تاکہ اسٹرانگ روم میں پوری نظر رکھی جا سکے۔پولیس 34 سال کا پورے اسٹاف کا ریکارڈ سمیت سب کچھ کی جانچ پڑتال کرے گی تب جاکر شاید کوئی سراغ ملے۔ ممکن ہے کہ اب تک کئی افسر و ملازم ریٹائر بھی ہوچکے ہوں گے۔ آخر یہ سونا چور کون ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟