ٹرین کی زد میں آئے بچوں کی موت کا ذمہ دار کون

اترپردیش کے بھدوئی میں کٹکا۔مادھوسنگھ اسٹیشنوں کے مابین الہ آباد پیسنجر ٹرین حادثہ کی انتہائی تکلیف دہ خبر آئی ہے۔ یہاں ایک ریلوے کراسنگ پر اسکول بس اور ٹرین آپس میں ٹکرا جانے سے 8 بچوں کی موت اور کئی زخمی ہوگئے۔ خبر دل دہلانے والی ہے۔ زیادہ افسوس تو یہ ہے کہ یہ حادثہ آسانی سے ٹل سکتا تھا۔ یہ ڈرائیور کی سراسر لاپرواہی و غیر ذمہ داری کی وجہ کا نتیجہ ہے۔ ریل کراسنگ ویسے بھی غیر محفوظ مانی جاتی ہے۔ حال اور ماضی میں کئی اسکول بسوں کے غیر محفوظ ریلوے کراسنگ پر حادثات ہونے کے واقعات اکثر سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ ریل حادثات میں ہونے والی اموات میں سے60فیصد اموات کھلی ریلوے کراسنگ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ تازہ معاملے میں پیر کی صبح سوا سات بجے وارانسی۔ الہ آباد ریل روٹ پر واقع مادھو سنگھ اور کٹکا اسٹیشنوں کے درمیان کیئر مؤ ریلوے کراسنگ پر اسکول بس کو حادثہ ڈرائیور کی لاپرواہی سے ہوا ہے۔ چشم دید گواہوں کے مطابق کراسنگ کے گیٹ کے ملازم رمیش رائے نے بس ڈرائیور کو رکنے کے لئے آواز لگائی تھی لیکن ایئر فون لگانے کی وجہ سے وہ نہ تو اس کی آواز سن سکا اور نہ ہی ٹرین کی آواز۔ حادثہ میں ڈرائیور رشید بھی زخمی ہوگیا۔ دھونیا میں واقع ٹنڈر ہارٹ پبلک اسکول کی ٹاٹا میجک گاڑی مرزا پور سرحد سے لگے کیئر مؤ اور بھتیاری گاؤں کے بچوں کو اسکول کے لئے لینے گئی تھی۔ ریلوے کراسنگ پار کرتے ہوئے یہ حادثہ ہوا۔ حادثہ میں بچے ارپت مشرا(10 سال)، شویتا مشرا (8 سال)، انکت مشرا (7 سال) اور نویدک (9 سال) پر دومن (17 سال)، ابھیشیک (10 سال)، ساکشی (9 سال) کی موقعہ پر ہی موت واقع ہوگئی۔ 12 بچے زخمی ہوئے۔ ہندوستان میں تقریباً30 ہزار کے قریب ریلوے لیول کراسنگ ہیں جس میں سے قریب11 ہزار کراسنگ پوری طرح سے غیر محفوظ ہیں۔ جہاں نہ کوئی گیٹ لگا ہے نہ کوئی ریلوے ملازم تعینات ہے۔ان غیر محفوظ ریلوے کراسنگ پر ہی زیادہ حادثات ہوتے ہیں اس کے علاوہ لوگ جگہ جگہ ریلوے پٹری پار کرنے کی جگہ بنا لیتے ہیں وہاں بھی کافی حادثات ہوتے ہیں، خاص کر ایسے شہری علاقوں میں ممبئی میں ہر سال ہزاروں لوگ پٹری پارکرتے ہوئے مر جاتے ہیں۔بنیادی اشو یہ ہے کہ ریلوے پٹریوں پر شہریوں کی موت کا اشو اتنا سنجیدہ اشو نہیں مانا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ اربوں کے بجٹ میں ان بے انسان ریلوے کراسنگ پر سکیورٹی کے پختہ انتظام نہیں ہوتے۔ آئینی ثبوتوں کے مطابق اگر کوئی ٹرین 80 یا 100 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آر ہی ہو تو اس کی دوری کا اندازہ غلط ہونے کے پورے پورے خدشات ہوتے ہیں۔ انسانی اندازہ 50 سے60 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار والی گاڑیوں کے لئے ہی پورا اترتا ہے۔ وزیر ریل اور وزارت کے سینئر افسروں کو کم سے کم اتنا تو کرنا ہی چاہئے کہ ایسی ریلوے کراسنگ پر جن سے80سے100 کلو میٹر کی رفتار سے ٹرینیں گزرتی ہیں ان پر تو پٹری پار کرنے کے محفوظ انتظام کرے۔ گاڑی ڈرائیوروں اور پٹری پار کرنے والوں کو بھی کراسنگ پر خاص توجہ دینی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!