دہلی میں بچوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات ایک برننگ اشو

حال ہی میں دہلی ہائی کورٹ نے دہلی سے لاپتہ ہوتے بچوں پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔عدالت ہذا نے لاپتہ ہو رہے بچوں کے معاملے کو دہشت گردی کے برابر مانا ہے۔ دہلی سے یومیہ اوسطاً 22 بچے غائب ہوتے ہیں۔ ان میں سے28 فیصدی بچے دوبارہ کبھی گھر نہیں لوٹ پاتے۔ بچوں کے غائب ہونے سے جہاں متاثرہ خاندان ٹوٹ جاتے ہیں وہیں یہ بچے غلط ہاتھوں میں پڑجاتے ہیں اور سماج کے سامنے خطرہ پیدا کرتے ہیں۔ راجدھانی میں لاپتہ ہوئے بچوں میں سے زیادہ تر لڑکیاں ہوتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر زبردستی جسم فروشی کی دلدل میں جھونک دی جاتی ہیں یا گھریلو نوکری کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ بچوں کے لئے کام کرنے والی انجمن ’’کرائی‘‘ اور انسانی حقوق تنظیم ’’اے پی آر‘‘کی جانب سے مشترکہ طور سے کرائے گئے ایک سروے میں دعوی کیاگیا ہے کہ پچھلے سال کمسنی میں 3715 لڑکیاں لاپتہ ہوگئی تھیں جبکہ لڑکوں کی تعداد2493 رہی ہے۔ سروے کے مطابق پولیس لڑکیوں کو لاپتہ ہونے پر اکثر شادی کے لئے فراری کی وجہ بتا کر حوالہ دے دیتی ہے لیکن بچائی گئی بچیوں سے ہوئی بات چیت اور کسی نتیجے پر پہنچتی ہے۔ سروے کہتا ہے کہ لڑکیوں کا اغوا کیا جاتا ہے اور انہیں جسم فروشی میں جھونک دیا جاتا ہے، شادی کرادی جاتی ہے یا گھروں میں نوکر کے طور پر کام کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔کرائی انجمن کی انچارج جیا سنگھ نے بتایا کہ خود بھاگنے والی لڑکیوں کی تعداد کم ہے حالانکہ لڑکوں کو ترجیح دئے جانے کے ٹرینڈ کی وجہ سے 0سے8 سال کی کمسن عمر میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے زیادہ لاپتہ ہوتے ہیں۔ پچھلے سال اس کمسن عمر کے 453 لڑکے غائب ہوئے تھے جبکہ گمشدہ لڑکیوں کی تعداد352 رہی۔ سب سے زیادہ بچے نو آباد غیر منظور کالونیوں سے غائب ہوتے ہیں۔ باہری دہلی میں سب سے زیادہ1326 ، جبکہ ساؤتھ ویسٹ دہلی سے784 بچے لاپتہ ہوئے۔ ان اضلاع میں زیادہ واقعات ہوئے ہیں۔ ان غیر منظور کالونیوں اور انڈسٹریل علاقہ سے لاپتہ ہونے والے لڑکے لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لاپتہ ہوئے بچوں کے زیادہ تر خاندان غریب تھے۔ باہری اور مغربی دہلی میں رہتے تھے۔ زیادہ تر خاندان روزی روٹی کی تلاش میں دہلی آکر بس گئے تھے۔ کئی خاندانوں کے سبھی افراد فیکٹری میں کام کی تلاش میں باہر جاتے تھے۔ دہلی میں آئے دن لاپتہ ہورہے بچوں کی تلاش سرکار کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ یہ باتیں چائلڈ رائٹس اینڈ یو (کرائی) اور الائنس فور پیپلز رائٹ(اے پی آر) کی ایک عوامی سماعت میں والدین نے بتایا کہ اس مسئلے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور پبلک سماعت میں تیزی سے بڑھ رہے اس مسئلے کا حل تلاشنے اور دور کرنے کے لئے لاپتہ بچوں کے ماں باپ اور متعلقہ تنظیموں کے درمیان رائے مشورہ کیا گیا۔ اس پبلک سماعت کا مقصد راجدھانی میں لاپتہ بچوں کی بڑھتی تعداد کی ذمہ داری کو سمجھنے اور اس سے درپیش چیلنجوں کو سامنے لانا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟