افریقی شہریوں پر بڑھتے حملے

دہلی میں افریقی شہریوں پر بڑھتے حملے تشویش کا باعث ہیں۔ کچھ دن پہلے دہلی کے وسنت کنج علاقہ میں کانگو کے ایک لڑکے کو تین لوگوں نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا تھا۔ پچھلے ہی ہفتے ساؤتھ دہلی کے چھترپور علاقہ میں پھر کچھ افریقیوں پر حملے ہوئے، جن میں زخمی ایک افریقی کی حالت نازک ہے۔ ان حملوں کو ایک جرائم کی واردات کی شکل میں دیکھا جائے یا ایک ٹرینڈ یا نسلی تعصب کے طور پر؟ ساؤتھ افریقہ کے ہائی کمشنر نے بے جھجھک اسے نسل پرستی کی وارداتیں قرار دیا ہے حالانکہ انہوں نے ساتھ ہی یہ ضرور جوڑا کہ نسل پرستی حکومت ہند کی پالیسی نہیں ہے، اور امید کی جانی چاہئے کہ وہ ایسے واقعات سے سختی سے نمٹے گی۔ صدر محترم پرنب مکھرجی نے کہا کہ یہ بیحد افسوسناک ہوگا کہ بھارت کے لوگ افریقہ سے ہماری دوستی کی بیحد پرانی روایت کو نقصان پہنچائیں۔افریقی شہریوں کا بھارت میں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری طرف گوا کے وزیر سیاحت دلیپ پارو لیکر نے کہا کہ نائیجریا کے شہری نہ صرف گوا میں بلکہ پورے دیش میں پریشانیاں کھڑی کررہے ہیں۔ وہ نشیلی چیزیں بیچنے اور دوسری حرکتوں کے لئے واردات کرتے ہیں۔ گوا میں 31 سالہ ایک خاتون کو اغوا کر اس کی آبروریزی کرنے کے ملزم نائیجریا کے ایک شخص کو پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ پولیس افسر کے مطابق اسے مہاراشٹر سے پکڑا گیا ہے۔ متاثرہ کا دعوی ہے کہ دو افریقی شہریوں نے چاقوکی نوک پر اسے اغوا کر اس سے بدفعلی کی۔ ساؤتھ دہلی کے راجپور خورد علاقہ میں افریقی شہریوں کے ایک گروپ پر الزام ہے کہ انہوں نے پیر کو صبح سویرے چار بجے ایک کیب ڈرائیور کی پٹائی کردی۔ پولیس کے مطابق ان میں سے 4 مرد اور 2 عورتیں تھیں۔ سبھی مسافروں کو کیب میں بیٹھنے سے منع کرنے پر ڈرائیور سے ان کی بحث ہوگئی۔ اس کے بعد انہوں نے ڈرائیور پر حملہ کردیا۔ 5 لوگ تو بھاگ گئے لیکن ڈرائیور نے ایک خاتون کو پکڑلیا۔ یہ روانڈا کی باشندہ بتائی جارہی ہے۔ اس خاتون کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ بھارت میں رہ رہے افریقیوں کا عام تجربہ یہ ہے کہ ان پر حملوں یااذیت کے معاملوں میں پولیس تماشائی بنی رہتی ہے۔ یہاں ان کا سماجی تجربہ بھی کم تکلیف دہ نہیں رہا۔ ان کا کہنا ہے ان پر اکثر چھینٹا کشی کی جاتی ہے۔ قابل اعتراض فقرے کسے جاتے ہیں۔ نسل پرستی پر مبنی گالیاں دی جاتی ہیں۔ دوکاندار، ٹیکسی ، آٹو ڈرائیور ان سے خوشگواری سے پیش نہیں آتے۔ان شکایتوں کو سرے سے مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وزیر خارجہ سشما سوراج، وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ان الزامات اور حملوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے دہلی پولیس کو ایسے واقعات سے سختی سے نمٹنے کے احکامات دئے ہیں۔بھارت ہمیشہ نسل پرستی کے خلاف ہے۔ یہ گاندھی کی بھی وراثت ہے اور نسل پرستی کے خلاف ہماری جدوجہد کی بھی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟