مغربی بنگال میں کھسکتا لیفٹ پارٹیوں کا جن آدھار

لال گرہ کہے جانے والے مغربی بنگال میں حالیہ اسمبلی چناؤ میں مارکسوادی پارٹی کی قیادت والا لیفٹ مورچہ بری طرح ہار کے بعد مارکسوادی پارٹی کے ایک پولٹ بیورو ممبرنے اعتراف کیا ہے کہ کانگریس کے ساتھ چناوی اتحاد پارٹی کے خلاف گیا ہے اگر وہ اپنے ووٹ بینک میں ٹوٹ پھوٹ روکنے میں ناکام رہی تو اس کے سیاسی وجود پر بھی سوال کھڑے ہوجائیں گے۔ مغربی بنگال میں اقتدار سے ترنمول کانگریس کو ہلانے کے لئے لیفٹ مورچہ نے اپنی آئیڈیالوجی کو ایک کنارے کرتے ہوئے سیاسی دشمن مانے جانے والی کانگریس سے ہاتھ ملایا، لیکن اس پر بھی اسے چناؤ میں سب سے زیادہ کھونا پڑا۔ اس کی 2011ء میں 62 سیٹوں میں سے کھسک کر اس بار یہ محض32 سیٹوں پر سمٹ گئی۔ مارکسوادی پولٹ بیورو کے ممبر و سابق ممبر پارلیمنٹ حنان ملا نے کہا کہ اگر ہم اپنے ووٹ بینک اور مینڈیٹ کو روک نہیں پائے تو ہم بنگال میں مارکسوادی پارٹی اور لیفٹ پارٹیوں کے وجود پر سنگین سوال کا سامنا کریں گے۔ ہم نہ صرف لوگوں کا مزاج اور نبض پہچاننے میں ناکام رہے بلکہ پچھلے پانچ سال میں اپنی کھوئی طاقت کو واپس پانے میں بھی ناکام رہے۔ ملا نے کہا کہ لوگوں نے کانگریس کے ساتھ لیفٹ کا اتحاد قبول نہیں کیا۔ ہم اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ لوگوں نے بے روزگاری ،کرپشن اور صنعتی کرن کے اشوز کے باوجود بڑی تعداد میں ممتا بنرجی اور ترنمول کو ووٹ دیا۔ اس کے مقابلے بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2014ء کے لوک سبھا چناؤ کے بعد کچھ حد تک اپنا اثر کھو چکی مغربی بنگال اسمبلی چناؤ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس بار اس نے 70 سے زائد سیٹوں پر اپوزیشن لیفٹ فرنٹ اور کانگریس کے اتحاد کا کھیل بگاڑنے کا کام کیا ہے
۔ مغربی بنگال میں بھاجپا کو 2014ء کے لوک سبھا چناؤمیں 17.5 فیصدی ووٹ کے مقابلے میں ان اسمبلی چناؤ میں10.2 فیصدی ووٹ ملے لیکن پہلی بار پارٹی نے اس ریاست میں اپنے دم خم پر چناؤ لڑکر تین سیٹیں حاصل کی ہیں۔ اس سے پہلے بھاجپا 2011ء میں ضمنی چناؤ میں دو بار جیت چکی ہے۔ اس کا ووٹ فیصد 4.06فیصد رہاتھا۔ مغربی بنگال میں ایسا لگتا ہے کہ لیفٹ کی قیادت والا مینڈیٹ بحال کر پانے میں ناکام رہا۔ برندا کرات نے بتایا کہ پارٹی لیڈرشپ مارکسوادی پارٹی کی خراب کارکردگی اور مغربی بنگال یونٹ کی چناوی حالت کا تجزیہ کرے گا جس سے صحیح پوزیشن کا پتہ چل سکے اور پارٹی کا مینڈیٹ بحال کرنے کی حکمت عملی بنائی جاسکے۔ مارکسوادی پارٹی کی مغربی بنگال ریاست کمیٹی کے ایک سینئر ممبر نے کہا کہ نتیجے اشارہ کرتے ہیں کہ لیڈر شپ تبدیلی سے لیکر مختلف سطحوں پر جو نئے چہرے لانے کے قدم اٹھائے وہ عام آدمی تک پہنچنے میں ہمیں مدد دینے میں ناکام رہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟