کیا انہیں پریوار واد کیخلاف بولنے کا حق ہے

راجیہ سبھا کی 57 سیٹوں کے لئے 11 جون کو ہونے والے چناؤ میں دلچسپ نظارے سامنے آنے والے ہیں۔ ایک طرف جہاں اپنے سگے رشتے داروں کو راجیہ سبھا میں پہنچانے کی تیاری ہورہی ہے وہیں دوسری طرف سیاسی پارٹیاں اسمبلی چناؤ کو بھی سامنے رکھنے میں لگی ہوئی ہیں۔سب سے دلچسپ نظارہ بہار اتراکھنڈ میں ہونے والا ہے۔ بہار میں راجیہ سبھا کی 5 سیٹیں ہیں اس کے لئے جنتا دل (یو) کے لئے10 سیٹوں کیلئے جے ڈی یو کے سابق قومی صدر شر دیادو اور آرتی سنگھ،اور آر جے ڈی کی طرف سے پارٹی چیف لالو پرساد یادو کی بڑی بیٹی میسا بھارتی اور سپریم کورٹ کے مشہور وکیل رام جیٹھ ملانی نے اپنا اپنا پرچہ بھرا ہے۔ نمبروں کے حساب سے میسا کے راجیہ سبھا کا ممبر بننے کی پوری امید ہے۔ اگر میسا کامیاب ہو جاتی ہیں تو لالو خاندان کے چوتھے ممبر سیاست کے میدان میں دم بھریں گے۔ لالو یادو کے دونوں لڑکے تیجسوی اور تیج پرتاپ یادو نتیش کمار کی کیبنٹ کے ممبر ہیں۔ بیوی رابڑی دیوی بہار کی وزیر اعلی رہ چکی ہیں۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ سیاسی اکھاڑے میں لالو خاندان کہ اگلے ممبرکون ہوتے ہیں؟ جارکھنڈ مکتی مورچہ کے صدر اور ریاست کے وزیر اعلی رہ چکے شیبو سورین اپنے چھوٹے بیٹے بسنت سورین کو راجیہ سبھا میں بھیجنے کی تیاری کررہے ہیں۔ شیبو سورین کے بڑے بیٹے ہیمنت سورین سیاست میں پہلے ہی اپنا سکہ جما چکے ہیں اور جھارکھنڈ کے وزیراعلی بھی بن چکے ہیں۔ شیبو سورین کے بھائی لالو سورین بھی سیاست کے میدان میں اپنا داؤ کئی بار آزماچکے ہیں لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ معلوم ہوکہ جھارکھنڈ میں راجیہ سبھا کی دو سیٹیں خالی ہوئی ہیں ایک سیٹ کانگریس کے دھیرج ساہو اور ایک سیٹ بھاجپا کے این جے اکبر کی خالی ہوئی ہے۔ بھاجپا نے جہاں مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کو امید وار بنایا ہے وہیں جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے بسنت سورین کے نام کا اعلان کیا ہے۔ فی الحال لالو یادو پریوار اپنے سمدھی ملائم سنگھ یادو پریوار سے کافی پیچھے ہیں۔ اترپردیش میں ملائم سنگھ یادو پریوار کے 18 ممبر اسمبلی سے لیکر راجیہ سبھا میں پہلے ہی پہنچ چکے ہیں۔ بہار میں اسمبلی کی طرز پر راجیہ سبھا چناؤ میں بھی مہاگٹھ بندھ نے دبدبہ بنائے رکھنے کی بنیاد تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ بنیاد بھی ایسی جس کا جواز مفاد پرستی والا ہو۔ آرجے ڈی امیدوار رام جیٹھ ملانی نے انگریزی میں حلف لیا۔پرچہ داخل کرنے کے بعد انہوں نے حلف لینے کے لئے انگریزی کی کاپی مانگی جو دستیاب نہیں تھی۔ فوراً انگریزی میں حلف نامہ کی کاپی منگائی گئی ۔ کون کہتا ہے کہ بھارت میں پریوار واد کو بڑھاوا نہیں دیا جاتا۔ جہاں ایک ایک خاندان کے 18 ممبر سرگرم سیاست میں ہوں کم سے کم ان لوگوں کو تو پریوار واد کی بات نہیں کرنی چاہئے۔ کیا پریوار واد پر ریزرویشن نہیں ہونا چاہئے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!