دیش کی چناوی تاریخ میں الیکشن کمیشن نے پہلی بار ایسا فیصلہ لیا ہے

ہندوستان کی چناوی تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس کی تعریف ہونی چاہئے۔ کمیشن نے ووٹروں کو متاثرکرنے کے لئے پیسے کا استعمال کیجئے جانے کے ثبوت ملنے کے بعد سنیچر کو تاملناڈو کے گورنر کے روسیا کو پردیش کی دو اسمبلی سیٹوں کے چناؤ منسوخ کرنے کی سفارش کی تھی۔کمیشن نے گورنر سے نوٹیفکیشن میں ترمیم کر تاملناڈو اسمبلی کی دو سیٹوں کے لئے مناسب وقت پر نئے چناؤ کرانے کو کہا ہے۔ اس سے پہلے چناؤ کمیشن نے اوراؤکروچی، تھنجابر اسمبلی سیٹوں کے لئے چناؤ میں دو موقعوں پر امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کے ذریعے ووٹروں کو وسیع پیمانے پر پیسہ اور تحفے بانٹنے کی اطلاع پر ملتوی کیا تھا۔ شروع میں پولنگ 13سے23 مئی کے لئے ملتوی کی گئی تھی۔ 21 مئی کو چناؤ کمیشن نے پولنگ ایک بار پھر13 دن کے لئے ملتوی کرنے کا فیصلہ لیا۔ ان دونوں اسمبلی سیٹوں پر 8 کروڑ روپے سے زیادہ نقد رقم ضبط کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ تلاشی کے دوران 2500 لیٹر شراب، چاندی کے زیورات اور دھوتی اور ساڑی وغیرہ برآمد کئے گئے تھے۔ ایک افسر نے بتایا چناؤ کمیشن کی ہدایت کے مطابق چناؤ کمیشن اس سے مطمئن ہے کہ دو اسمبلی حلقوں میں چناؤ عمل اور امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کے ذریعے ووٹروں کو متاثر کرنے کے لئے پیسہ اور دیگر تحائف پیش کئے جانے کے چلتے یہ متنازع ہوگئے ہیں اس کارروائی کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔اسے منسوخ ہونا چاہئے۔ چناؤ منسوخ کرنے کا چناؤ کمیشن کا فیصلہ پیسے کے بل پر چناؤ جیتنے کی کوشش کرنے والے کے لئے ایک بڑا جھٹکا ہے۔ اس جھٹکے کی سخت ضرورت بھی تھی۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس کی کیا گارنٹی کے آگے ماحول بہتر ہوجائے گا؟ ایسا پہلی بار نہیں جب نقد رقم ضبط کی گئی ہو لیکن چپ چاپ طریقے سے پیسہ بانٹنے کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ ووٹروں کو پیسے کا لالچ دے کر چناؤ جیتنے کے مسئلہ نے ایک سنگین شکل اختیار کرلی ہے۔ پیسے کا کھیل ٹکٹ بانٹنے سے لیکر شرو ع ہوجاتا ہے اور نتیجے آنے تک چلتا رہتا ہے۔ اس بات کے بھی آثار کم ہیں کہ ہماری سیاسی پارٹیاں سدھریں گے۔ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا۔ جہاں چناؤ کمیشن کے ذریعے ان دو اسمبلی حلقوں میں دوبارہ چناؤ کرانے کا فیصلہ لائق تحسین ہے وہیں ہم سمجھتے ہیں کہ چناؤ کمیشن کو کرپٹ طریقے اپنانے والے امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کو چناؤ لڑنے کے نا اہل قرار دینے کا اختیار ملنا چاہئے۔ اگر چناؤ کمیشن اصلاحات سے متعلق اور زیادہ حقوق سے مضبوط نہیں ہوتا تو اس میں شبہ ہے کہ یہ غیر جمہوری رواج رکنے والا نہیں ہے۔ خیر پھر بھی اس سمت میں چناؤ کمیشن کا یہ پہلا قدم ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟