فوجی سازو سامان ڈپو میں آگ کا سلسلہ تھمتا نظر نہیں آرہا
7 ہزارایکڑ میں پھیلے دیش کے سب سے بڑے فوجی سازو سامان ذخیرہ میں لگی خطرناک آگ نے سب کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔ یہ فوج کے بیش قیمت بھنڈاروں میں آگ لگنے کی اب تک کی سب سے بڑی واردات ہے۔ مہاراشٹر کے وردھا ضلع کے پل گاؤں بھنڈار میں پیر کو آدھی رات لگی اس خوفناک آگ پر قابو تو ضرور پالیا گیا ہے لیکن اس حادثہ سے ایک بار پھر فوجی سازو سامان کے گوداموں کی سلامتی کو لیکر سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ جنگی سازو سامان ذخائر گودام میں موجود فوری ایکشن ٹیم اور فائر ٹیموں نے تیزی دکھائی جس کی وجہ سے آگ ڈپو کے ایک حصے تک ہی محدود رہی۔ مگر اس حادثے میں ہوئی 19 جوانوں و افسروں کی موت یہ بتاتی ہے کہ انہیں امن کے دور میں بھی کس طرح خطروں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ حادثہ میں لیفٹیننٹ کرنل آر ایس پوار، میجر کے ۔منوج، فوج کے ایک جوان اور ڈپو میں تعینات فائر محکمہ کے ملازمینوں کی موت ہوگئی۔ حادثہ میں 130 ٹن گولہ بارود تباہ ہوگیا۔ پاس کے 7 دیہات کو خالی کرانا پڑا۔ 7 ہزار ایکڑ میں پھیلا فوجی سازو سامان ڈپو دیش میں سب سے بڑا اور ایشیا کا دوسرا ڈپو مانا جاتا ہے۔ دیش میں ایسے15 ڈپو ہیں۔ فیکٹریوں سے گولہ بارود، ہتھیار، میزائلیں تک سیدھے اس ڈپو میں آتی ہیں اور یہاں سے ضرورت کے مطابق فوج کے دوسرے سینٹرز میں انہیں بھیجا جاتا ہے۔ یہ بدقسمتی ہی ہے یہاں گولہ بارود اور ہتھیار دیش کی سلامتی کے لئے اکٹھا کیا جاتا ہے مگر ان سے اپنے ہی لوگوں کے لئے خطرہ پیدا ہوگیا۔ دراصل دیش کے جنگی سازو سامان کے بیش قیمت بھنڈاروں میں سیکورٹی معیارات کو لیکر پہلے بھی سوالات اٹھے ہیں۔ پچھلی ڈھائی دہائی کے اعدادو شمار دیکھیں تو پل گاؤں، جبلپور، کولکتہ اور بھرت پور کے فوجی سازوں سامان ڈپو میں بھی اسی طرح کی آگ زنی کے واقعات ہو چکے ہیں جن میں گولہ بارود تباہ ہونے کے ساتھ ہی کئی جوانوں کی موت بھی ہوئی۔ یہ آگ کن حالات میں لگی اس کے لئے کون ذمہ دار ہے اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ماہرین سازش کے اندیشے سے بھی انکار نہیں کررہے ہیں۔ پورے معاملے کی جانچ کیلئے اسپیشل تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) بنا دی گئی ہے۔ اس کی رپورٹ کا انتظار کرنے کے علاوہ ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بیش قیمت فوجی سازو سامان کے ڈپو میں آگ لگنے کی دیش میں یہ کوئی اکلوتی واردات نہیں ہے۔ ابھی کوئی چھ مہینے پہلے 8 دسمبر2015 کو وشاکھاپٹنم میں واقع بحریہ ہتھیار ڈپو میں آگ لگی تھی۔ اس صدی کی ڈیڑھ دہائیوں میں اب تک ہتھیار ڈپو میں آگ لگنے کی یہ پانچویں واردات ہے۔ہم دنیا کے شکتی مان بننے کی دوڑ میں تو شامل ہیں لیکن کیا ایسی کوئی بڑی طاقت بھی دنیا میں ہے ، جہاں ہتھیار ڈپو میں آگ لگنے کے اتنے واقعات ہوتے ہیں؟ اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ پچھلے حادثوں سے ہم نے کوئی سبق نہیں لیا ہے۔ سال2000ء میں بھرت پور فوجی سازو سامان ڈپو میں ہوئی آگ زنی کے بعد کا تجزیہ تھا کہ اس میں قریب پونے چارسو کروڑ روپے کا گولہ بارود ضائع ہوگیا تھا اور وہ کارگل جنگ کے دوران خرچ ہوئے گولہ بارود کے برابر تھا جب بھی ایسی کوئی واردات ہوتی ہے تو تبھی متعلقہ فریق پھرتی دکھانے میں پیچھے نہیں رہتے۔ نہ صرف متوفین کو شردھانجلی دینے میں بلکہ واقعات پر تشویش اور دکھ جتانے اور اس کی جانچ کرانے کے حکم میں کوئی ڈھلائی نہیں برتی جاتی لیکن کچھ وقت گزر جانے کے بعد جب حالات ٹھیک ہوجاتے ہیں تو ان جانچ رپورٹوں کا پتہ نہیں کیا ہوتا۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لئے کوئی کارگر اور مستقل انتظام نہیں کیا جاتا۔اس بار بھی لاپرواہی سے لیکر سازش تک ہر ممکنہ زاویئے سے جانچ کی بات کی جارہی ہے۔ جانچ بالکل ہونی چاہئے لیکن اس کا فائدہ تبھی ہے کہ اس جانچ کی بنیاد پر ٹھوس قدم اٹھائے جائیں تاکہ مستقبل میں دیش کے جان و مال کو بچایا جاسکے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر دفاع منوہر پاریکر اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں گے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں