دلت خاتون کے بربریت آمیز قتل نے نربھیا واقعہ کی یادیں تازہ کردیں

کیرل کے ارناکولم ضلع میں ایک دلت لڑکی سے بربریت آمیز آبروریزی اور پھر اس کے قتل سے دہلی کے وسنت وہار علاقے میں نربھیا کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔پیرمبدور کی باشندہ ارنا کولم لا کالج میں قانون کے نصاب کے فائنل میں پڑ ھ رہی ھالبہ کے گھر میں گھس کر مجرم نے آبروریزی کی اور بیحد بربریت آمیز طریقے سے قتل کو انجام دیا۔ چاقو سے اس کی آنتیں باہر نکال دیں۔ اس کا تو صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے کہ مجرم کس بربریت اور غیر انسانی نظریئے کا ہوگا اور اس کے دل میں لڑکی کے خلاف کس حد تک نفرت بھری رہی ہوگی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس کے ساتھ بربریت آمیز مارپیٹ کئے جانے اور آبروریزی کرنے کی تصدیق ہوئی ہے۔ پولیس ذرائع نے پوسٹ مارٹم کی جانکاری دیتے ہوئے بدھ کو بتایا کہ اس کے جسم پر 38 چوٹوں کے نشان تھے۔ رپورٹ میں آبروریزی کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔ ملپوجھا میڈیکل کالج کے فورنسک شعبے نے پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کی ہے۔ اس معاملے میں حالانکہ کافی دن گزر چکے ہیں لیکن اب تک کوئی گرفتاری نہیں ہوسکی ہے۔ 16 مئی کو ہونے والے اسمبلی انتخابات سے پہلے ریاست میں واردات کو لیکر عوام میں ناراضگی پیدا ہونا فطری ہی ہے۔ جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ اسی درمیان کیرل حکومت نے مقتول کے رشتے داروں کو 10 لاکھ روپئے امدادی معاوضہ رقم دینے کا اعلان کیا ہے۔ ایک سرکاری بیان میں بتایا گیا ہے متاثرہ کی بہن کو سرکاری نوکری دی جائے گی۔ سرکار متاثرہ لڑکی کے گھروالوں کو مدد دینے کے لئے چناؤ کمیشن سے اجازت لے گی کیونکہ وہاں چناؤ ضابطہ نافذ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ قریب شام پانچ بجے ہوئی اس واردات کو لیکر آس پاس کے تمام لوگ بے خبر رہے اور کسی نے اس گھر سے نکل کر جاتے شخص کے بارے میں کچھ پوچھنا ضروری نہیں سمجھا۔ جب لڑکی کی ماں 8 بجے گھر آئی اور چیخنے چلانے لگی تب بھی اس خاندان سے کوئی تعلق نہ ہونے کا حوالہ دیکر پڑوسیوں نے مدد کی التجا تک نہیں سنی۔ یہی نہیں انتظامیہ نے پچھلی جمعرات کو ہوئی اس واردات کے معاملے میں تب تک ٹال مٹول والا رویہ اپنائے رکھا جب تک اس نے طول نہیں پکڑ لیا۔متاثرہ خاندان پہلے ہی بیحد غریبی کی حالت میں جی رہا تھا۔ بیٹی اور ماں اکیلے ایک کمرے کے چھوٹے گھر میں رہتے تھے۔ لڑکی ایک معمولی نوکری کے ساتھ پڑھ رہی تھی اور اس کی ماں گھریلو نوکرانی کا کام کیا کرتی تھی لیکن اتنے برسوں تک تکلیف جھیل کر اس مقام پر پہنچ سکی لڑکی اور اس کے خواب کو ایک جھٹکے میں ختم کردیا گیا۔ اگر ایسے جرائم کے تئیں انتظامیہ، پولیس اور سماج کا رویہ اسی طرح بے حسی اور لاپرواہی والا رہا تو ظاہر ہے اس کا شکار کمزور طبقوں کی نربھیا جیسی لڑکیاں ہوتی رہیں گی۔ پتہ نہیں ہم کب سدھریں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟