براک اوبامہ کا جانشین کون ہوگا

امریکہ میں براک اوبامہ کی میعاد اب آخری مرحلہ میں ہے۔ براک اوبامہ نے حال ہی میں بطور صدر آخری بار خطاب کیا۔ دہشت گردی، امریکی شہری اور اقتصادی اصلاحات کی باتیں ان کی تقریر میں خاص رہیں۔ انہوں نے بیرونی ممالک سے فوج کی واپسی ، نوکریوں میں بہتری لانے کے وعدوں پر پرعزم طریقے سے عمل کیا ہے۔ امریکہ سے باہر کی دنیا کو شاید اتنا نہ پتہ ہو لیکن سچ یہ ہے کہ اوبامہ نے امریکہ اور سیاسی پارٹیوں کو سہنے کے باوجود اپنا مقصد بہت حد تک حاصل کرلیا ہے۔ آج امریکہ میں نئی نوکریاں آنے کی جو اونچی شرح ہے وہ تاریخ میں کبھی نہیں رہی۔ ریپبلکن انہیں اقتصادی پالیسیوں پر نہیں گھیر پارہے ہیں، اس لئے وہ ضرور یاد کئے جائیں گے۔ لوگوں کے درمیان ان کی مقبولیت بہت زبردست ہے۔ براک اوبامہ امریکی تاریخ میں ایک کامیاب صدر مانے جائیں گے۔ اب دنیا بھر میں براک اوبامہ کے جانشین کے چناؤ پر نظریں لگی ہوئی ہیں۔ 8 نومبر کو امریکہ میں نئے صدر کے لئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ جون ۔ جولائی میں دونوں پارٹیوں کے امیدوار اعلان ہوں گے۔ آج کل امریکہ کی مختلف ریاستوں میں پرائمری کارروائی جاری ہے۔ امریکہ کے صدارتی چناؤ میں ڈیموکریٹک پارٹی سے ہلیری کلنٹن سب سے آگے دعویدار ہیں جبکہ ریپبلکن پارٹی سے ڈونل ٹرمپ انہیں بڑی ٹکر دے رہے ہیں۔نارتھ ایسٹ امریکہ کی پانچ ریاستوں میریلینڈ، پینلوینیا، ڈیلوائر اور روڈ آئرلینڈ میں کافی اچھی جیت حاصل کر ٹرمپ نے ثابت کردیا ہے کہ ان کی پارٹی میں کسی بھی امیدوارمیں انہیں چنوتی دینے کا معدہ ہے ادھر ہلیری کلنٹن سب سے آگے ہیں۔ حالانکہ ڈیموکریٹک پارٹی میں آخری مرحلہ میں پہنچنے کے باوجود برنی سینڈرس نے انہیں تقریباً ہر جگہ زبردست ٹکر دے رکھی ہے۔ 
بہرحال جون سے شروع ہونے والے اہم مقابلے میں ٹرمپ اور ہلیری ہی آمنے سامنے ہوں گے۔ اس درمیان ایک بات تو یہ طے ہوگئی ہے کہ اس بار چناؤ میں سب سے بڑے آئیڈیالوجی کے حامل چہرے نہیں دکھائی دینے والے ہیں۔ ڈونل ٹرمپ کی ساکھ ایک بڑبولے اور کٹر ساؤتھ پنتھی لیڈر کی بن رہی ہے جبکہ ہلیری کلنٹن کی ساکھ اصلی اشوز سے بھٹک کر پاپولسٹ پولیٹکس کرنے والی، بڑے سرمایہ کاروں سے نزدیکی رشتے بنا کر اپنی چناؤ کمپین چلانے والی ہلکی سیاستداں بن چکی ہیں۔ ہندوستانی نژاد امریکیوں کے ایک گروپ نے ڈونل ٹرمپ کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدارتی چناؤ میں اگر ہلیری کلنٹن چناؤ جیت جاتی ہیں تو وہ امریکی جمہوریت کے 50 سال کی تاریخ میں پہلی امریکی خاتون صدر ہوں گے۔ تازہ ماحول کو دیکھ کر2008 ء میں اپنے پہلے چناؤ کے دوران اوبامہ کا یہ تبصرہ یاد رہا ہے کہ اس بار آپ کو اچھے صدارتی امیدوار میں سب سے اچھے شخص کا چناؤ کرانا ہے۔ چناؤ نتائج جو بھی ہوں لیکن امریکہ میں خراب صدر چنا جانا باقی دنیا کے لئے بھی برے نتیجے لیکر آتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!