تیل اور کٹرتا کا برآمداتی سعودی عرب

پچھلے دنوں میں نے نیویارک ٹائمس کے مسٹر نیکولس کرسٹاف کا ایک آرٹیکل جس کا عنوان تھا ’’تیل اور کٹرتا کا برآمداتی‘‘ پڑھا۔ میں اس آرٹیکل کو قارئین کے سامنے جوں کا توں پیش کررہا ہوں تاکہ قارئین کو سعودی عرب کی اصلیت کا پتہ چل سکے۔ مصنف مسٹر کرسٹاف لکھتے ہیں حال ہی میں کالج کے ایک طالبعلم کو امریکہ میں اس وقت طیارے سے اتار دیا گیا جب وہ طیارے میں سوار ہونے کے بعد اپنے رشتے داروں سے فون پر بات کررہا تھا۔ اس نے اقوام متحدہ کے ایک پروگرام میں حصہ لیا تھا اور وہ اپنی خوشی اپنے خاندان والوں سے شیئر کرنا چاہتا تھا۔ اس کی غلطی صرف یہ تھی کہ وہ عربی میں بات کررہا تھا۔ امریکہ میں اس برس مسلمانوں کو طیارے سے ایسے وقت اتار دینے کا یہ چھٹا واقعہ ہے۔ سیاسی سسٹم میں بھی اسی طرح کے اسلامی فوبیہ(اسلام کا خوف) کو اظہار کرنے سے گریز نہیں کیا جارہا ہے۔ مثلاً صدر کی امیدواری میں شمار ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر عارضی پابندی کی وکالت کی ہے۔ ہیڈ کروز مسلم پڑوسیوں پر خاص نگرانی کی بات کررہے ہیں۔ ویسے خیال رہے کہ امریکن ایک ہزار مسلم پولیس افسر بھی ہیں۔ تقریباً 50 فیصدی امریکیوں نے پابندی اور خاص نگرانی کی حمایت کی ہے۔ ڈپلومیٹک مشکلات میں الجھے بغیر یہ دیکھنا چاہئے کہ عدم استحکام پھیلانے میں سعودی عرب کس طرح کا خطرناک کردار نبھا رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو وہ کس طرح اسلامی دنیا کی ساکھ خراب کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ اور کروز کے مقابلے میں سعودی عرب کے لیڈر اسلام کو زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اس لئے ہمیں اس کی کٹرتا کا اسی طرح سے احتجاج کرنا چاہئے جیسا کہ ہم ٹرمپ کی مخالفت کرتے ہیں۔ 9/11 کے حملہ سے وابستہ جانچ سے متعلق گمشدہ 28 صفحات کولیکر امریکہ پریشان ہے۔ جن میں اس حملے میں سعودی حکام کے ملوث ہونے کی غیر مصدقہ معلومات تھی۔ مگر میں یہ بتا سکتا ہوں کہ جانچ کمیشن کے ایک افسر نے مجھے بتایا تھا کہ 28 صفحات کے یہ مواد گمراہ کرنے والے ہیں اور کمیشن نے یہ پایا تھا کہ اس حملے کی سازش میں سعودی حکومت یا وہاں کے سعودی حکمران کے ذریعے مالی مدد دئے جانے کے بارے میں کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے۔ سعودی عرب کو لیکر پریشانی اس لئے ہونی چاہئے کیونکہ اس نے کٹرپسندی ،نفرت اور خواتین کی مخالفت اور شیعہ سنی تقسیم کو فروغ دیا ہے۔ یہی تقسیم اب مغربی ایشیا میں خانہ جنگی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ حقیقت میں سعودی عرب کا نام بدل کر’ کنگ ڈم آف بیک ورڈ نیس‘ (پسماندہ ملک) کردینا چاہئے۔ سعودی عرب میں عورتوں کے گاڑی چلانے پر پابندی لگی ہوئی ہے اور کار کی سواری کرنے پر وہ سیٹ بیلٹ نہیں لگا سکتیں ۔ وہاں اجتماعی آبروریزی کی متاثرہ 19 سالہ لڑکی کو 200 کوڑے مارنے کی سزا سنائی جاسکتی ہے حالانکہ احتجاج کے بعد بادشاہ نے اسے معاف کردیا تھا۔ وہاں عام بحث پر پابندی ہے اور اقلیتی شیعوں کو بھاری اذیتیں جھیلنا پڑتی ہیں۔ سعودی عرب میں اسلام کی شروعات ہوئی تھی اس لحاظ سے مسلم دنیا میں اس کا بہت اثر ہے۔ اسلام پر اس کے نظریئے کو خاص جواز حاصل ہے۔ اس کے مولویوں کی پہنچ دور دور ہے۔ میڈیا ان کے نظریات کو دنیا بھر میں پھیلاتا ہے ۔ یہی نہیں یہ دیش نفرت کے بیج بونے کے لئے غریب ملکوں کے مدارس کو بھاری مالی مدد بھی پہنچتا ہے۔ پاکستان سے لیکر مالی تک سعودی عرب کی مالی مدد سے جگہ جگہ مدرسے بن گئے ہیں۔مذہبی کٹر پسندی کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور دہشت گرد پیدا کررہے ہیں۔ وکی لکس کے ذریعے جاری امریکی محکمہ خارجہ کے دستاویزات سے پتہ چلا تھا کہ پاکستان میں ایسے کٹر پسند مدارس غریب خاندانوں کو 6ہزار 500 ڈالر کا انعام دیتے ہیں تاکہ وہ کم سے کم اپنے ایک بیٹے کو وہاں بھیجیں۔ صاف صاف الفاظ میں کہیں تو سعودی عرب اسلامی کٹر پسندی اور عدم رواداری کو دنیا بھر میں جائز قرار دینے کے لئے کام کررہا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے سعودی عرب الٹی سمت میں چل رہا ہے۔ اس نے یمن میں بربریت آمیز جنگ کی شروعات بھی کی تھی۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب ہم سے کہیں زیادہ پیسے والا ہے، یہ اسلامی دنیا میں زہر کا ذریعہ ہے اور اس کی نفرت ہماری کٹرتا کو ہوا دیتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟