بھاجپا حکمت سازوں کی نکمی پلاننگ نے بنٹا دھار کرایا

بہار اسمبلی نتائج سے ایک دو باتیں اور سامنے ابھر کر آئی ہیں۔ مزے دار بات یہ ہے کہ گزشتہ اسمبلی چاؤ (2010 ) کے مقابلے اس چناؤ میں بھاجپا کا ووٹ فیصد بڑھا ہے اور سیٹ کم ہوئی ہیں۔ 2010 ء میں پارٹی کو 16.49 فیصد ووٹ شیئر ملا تھا اور اس کی سیٹیں آئی تھیں 91 اور اس بار ووٹ فیصد بڑھ کر 24.5 فیصد ہوگیا جبکہ سیٹیں گھٹ کر 53 رہ گئیں۔ دوسری جانب جے ڈی یو کو 2010 ء میں 22.58فیصد ووٹ شیئر ملا تھا اور 115 سیٹیں ملی تھیں اس بار اسے 71 سیٹیں ہی ملی ہیں یعنی نتیش کمار ہارے ہیں۔انہیں مینڈیڈ نہیں ملا ہے۔ جیتے ہیں تو وہ لالو پرساد یادو اور کانگریس جیتی ہے۔ لالو کی آر جے ڈی کو 2010 میں 118.84 فیصد ووٹ شیئر اور 22 سیٹیں ملی تھیں جبکہ اس بار اس کا ووٹ شیئر تھوڑا کم 18.40 رہا پر سیٹیں ملیں80 ۔اسی طرح کانگریس کو 2010 ء میں 8.37فیصد ملا تھا اور سیٹیں ملی تھیں 4 جبکہ 2015ء میں اس کا ووٹ شیئر تو گھٹا 6.7فیصد پر سیٹیں ملیں 27 ۔ اس کا مطلب ہے کہ آر جے ڈی ، جے ڈی یو اور کانگریس کا ووٹ شیئر تو گھٹا پر بہتر چناوی حکمت عملی کے بل پر انہوں نے سیٹوں کا بٹوارہ ایسے کیا جس سے ایک دوسرے کے ووٹ کٹیں نہیں اور ٹرانسفر ہوجائیں۔اقلیتوں نے بھی کھل کر ان تینوں پارٹیوں کا ساتھ دیا۔ یہ بھاجپا حکمت سازوں و لیڈرشپ کے غلط اندازے سے ہوا اور اس کے لئے اگر بھاجپا حکمت ساز اور لیڈر شپ ذمہ دار نہیں تو اور کون ہے؟ اب ذرا نظر ڈالیں بھاجپا کی معاون پارٹیوں کی کارگزاری پر۔ بھاجپا نے بہار ہار کی پوری ذمہ داری خود لے لی ہے لیکن نتیجوں کے آنکڑے بتا رہے ہیں کہ کئی دیگر چھوٹی بڑی وجہوں کے بیچ تینوں پارٹیاں بھاجپا کی سیاست کا سب سے بڑا سراخ ثابت ہوئیں۔ سبھاؤں میں کہتے تھے کہ مہا گٹھ بندھن نے کانگریس کوٹے کی40 سیٹیں این ڈی اے کو تھالی میں پروس کر دے دیں لیکن نتیجہ آنے پر پتہ چلا کہ خود این ڈی اے نے اپنے سہیوگیوں کے کھاتے سے82 سیٹیں مہا گٹھ بندھن کی تھالی میں پروس دیں۔ بہار چناؤ میں ہوئی زبردست پٹائی کے باوجود بھاجپا کا اسٹرائک ریٹ قریب35فیصد (53/156 )رہا جبکہ سہیوگیوں کا قریب5 فیصد (5/87 ) رہا۔ ظاہر ہے کہ این ڈی اے کو ملی 58 میں 53 سیٹیں اکیلے بھاجپا کی ہیں۔ تینوں سہیوگی دل تو اپنے پریوار کی ساکھ بھی نہیں بچا سکے۔ پاسوان اور مانجھے کے بیٹے، بھتیجے ، داماد اور بھائی بھی فیل ہوگئے۔ پاسوان کے چھوٹے داماد انل سادھو ضمانت تک نہیں بچا پائے۔ اس پوری لڑائی میں سابق وزیر اعلی جیتن رام مانجھی سب سے کمزور کڑی ثابت ہوئے۔ مانجھی اپنی روایتی سیٹ مخدوم پور کو بھی نہیں بچا سکے۔ دلت اور مہا دلت ووٹروں نے مانجھی کو پوری طرح نکار دیا۔بھاجپا کا تو یہ حال تھا کہ بہت سی سیٹوں پر تو شیو سینا کے امیدوار کو زیادہ سیٹیں ملیں۔جس شخص نے لوک سبھا چناؤ میں نریندر مودی کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا بھاجپا کی لیڈرشپ نے اسے لات ماردی۔ حکمت عملی ساز پرشانت کشور نے بہار کے اہم چناؤ میں بھاجپا کو کرارا طمانچہ مار کر مہا گٹھ بندھن کو جتا کر حساب برابر کرلیا۔ مہا گٹھ بندھن کی اس زبردست جیت میں چانکیہ کی طرح کام کرنے والے پرشانت کشور اور ان کی ٹیم نے سیٹوں کا بٹوارہ ایسے کیا کہ بھاجپا مخالف ووٹ بٹا ہی نہیں۔ جہاں پر کانگریس کا امیدوار تھا اسے ووٹ دیا جہاں پر جنتا دل (یو) کا تھا اور راشٹریہ جنتادل کا تھا اسے ووٹ ملا۔ کیا یہ بھاجپا حکمت عملی سازوں کی بھاری غلطی نہیں تھی۔ لوک سبھا چناؤ جیتنے کے بعد مودی ، امت شاہ اور ارون جیٹلی پرشانت کشور کو بھول گئے اور اپنی اس اہنکاری غلطی کا خمیازہ پارٹی کو بھگتنا پڑا۔ بہار کی کراری ہار سے ابھرنے کی کوشش کررہی بھاجپا پر اس کے سہیوگی دل شیو سینا نے ایک اور وار کرتے ہوئے کہا کہ راج نیتی میں دھورتتا ہمیشہ کام نہیں آتی۔ اگر وعدے پورے نہیں کئے جاتے تو عام آدمی تو جواب دیتا ہی ہے۔ اس سے پہلے شیو سینا پرمکھ اودھو ٹھاکرے نے کہا تھا کہ آج ایک طرح سے پردھان منتری نریندر مودی ایک کمزور نیتا ہونے کا پرتیک ہیں۔بھاجپا نے نریندر مودی کی لیڈر شپ میں بہار چناؤ لڑا۔ بھاجپا کو اس بات کو قبول کرنا چاہئے یہ ہار ایک نیتا کے کمزورہوتی سطح کو بتاتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!