بہار چناؤ نتائج سے نئے اتحاد کی بنیاد پڑی

میں اکثر اسی کالم میں یہ اشارہ دیتا رہا ہوں کہ اگر بہار چناؤ میں مودی کی پارٹی بھاجپا ہار جاتی ہے تو اس کا قومی سیاست پر سیدھا اثر پڑے گا۔ آج میں اسی کالم کو آگے بڑھاتے ہوئے قارئین سے اپنے خیالات شیئرکررہا ہوں کہ اس نتیجے کا دوررس اثر کیا ہوگا؟ بہار میں این ڈی اے کی کراری ہار سے مودی سرکار کے خلاف نئے اتحاد کی بنیاد پڑ چکی ہے۔ بنگال، کیرل، اترپردیش اور تاملناڈو میں ایک نئے اتحاد کا امکان اب بڑھ گیا ہے اور نتیش کمار سیاسی طور سے اسے شکل دینے میں لگ جائیں گے ۔ لالو نے بھی قومی سطح پر ساتھیوں کو اکٹھا کرنے کی بات قبول کرلی ہے۔ یہ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ بہار کی چناوی جنگ میں مہا گٹھ بندھن کے سماجی حساب کتاب کے آگے بھاجپا کی رہنمائی والی این ڈی اے کی پوری سیاسی کیمسٹری فیل ہوگئی ہے۔انتہائی پسماندہ طبقات کو سمیٹے رکھنے کے ساتھ نتیش لالو کے گٹھ بندھن نے بھاجپا کے ووٹ بینک مانے جانے والی اعلی برادیوں میں بھی سیند ماری کی ہے۔ بیگو سرائے، جہان آباد ، اورنگ آباد، بھوجپور، بکسر، گوپال گنج، چھپرا ضلعوں و سیوان جیسے اضلاع میں بھاجپا کی کراری ہار دکھاتی ہے کہ گٹھ بندھن کی سوشل انجینئرنگ بھاری پڑی ہے یہی نہ ووٹروں نے پی ایم مودی کے اوبی سی اور پسماندہ طبقے سے ہونے کی اپیل کو مسترد کردیا ہے۔ جنگل راج کا خوف دکھا کر مذہبی پولارائزیشن کے سہارے چناوی نیا پار کرنے کی کوشش میں لگی بھاجپا آر جے ڈی ، جے ڈی یو کے ذات پات کے حساب اور سماجی تجزیئے کے چلتے بری طرح فیل رہی۔ جاریحانہ کمپین کے سہارے جیت حاصل کرنے والی بھاجپا کو آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کی ریزرویشن پالیسی کا جائزہ لینے کی مانگ نے پورے چناؤ کی تصویر ہی بدل ڈالی۔ پتہ نہیں سنگھ پرمکھ نے چناؤ کے ایسے نازک موڑ پر آرکشن کا جائزہ لینے کی مانگ کیوں کی اور کس مقصد سے کی؟ اب یہ مہا گٹھ بندھن کا فارمولہ دیگر ریاستوں میں بھی اپنایا جاسکتا ہے۔ لالو یادو نے کہا کہ مہا گٹھ بندھن کو بہار میں ملی کامیابی کے بعد پورا دیش ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم مودی سرکار کو ہٹانے کیلئے آگے بڑھیں۔ سیکولر نظریہ رکھنے والی سبھی پارٹیاں متحد ہوں گی۔ اس کی پہلی جھلک پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں دیکھنے کو ملے گی اور ہم لالٹین کو لیکر بنارس سے تحریک کا آغاز کریں گے۔ ان ریاستوں میں (بہار سمیت) 222 سے زیادہ سیٹیں ہیں ایسے میں مودی سرکار کے خلاف قومی سطح پر گھیرا بندی شروع ہوگی۔ بہار کے ووٹروں نے جہاں نریندر مودی کی لہر پر سوالیہ نشان لگادیا ہے وہیں 2014ء کے مہا نائک مودی کے لئے آگے کی راہ چنوتی بھری ہے۔بہار کے بنے تجزیوں کا سب سے زیادہ اثر اترپردیش میں دکھائی پڑ سکتا ہے۔ پی ایم اور بھاجپا کے لئے 2017ء کے یوپی چناؤ سب سے بڑی چنوتی بن کر سامنے ہوں گے۔ اب نہ تو مودی کا کرشمائی چہرہ ہوگا اور نہ ہی ان کی پارٹی کا کوئی جلوہ۔ مطلب صاف ہے کہ دہلی کی ہار کے بعد بہار کی اس شرمناک ہار کے سبب بھاجپا کو دوہرا جھٹکا لگا ہے۔ بھاجپا کو یوپی میں سماج وادی پارٹی اور نئی حکمت عملی کی تیاریوں کے ساتھ مقابلے کیلئے تیار ہورہی بہوجن سماج پارٹی سے لڑنا ہوگا۔ وزیر اعظم کی آبائی ریاست اور بھاجپا کی بھاری ممبران پارلیمنٹ کی تعداد کے باوجود یہ لڑائی کئی سطحوں پر آسان نہیں رہنے والی ہے۔ پردیش میں حکمراں سپا کے سامنے بھی کم و بیش ایسی ہی پوزیشن رہنے والی ہے۔ میں اگلے آرٹیکل میں اس ہار کا وزیر اعظم اور ان کی پارٹی پر کیا اثر پڑے گا اور کیوں ہارا این ڈی اے ان پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ اس ہار کے نتیجے سیاست پر جلد سامنے آنے لگیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!