چین آبادی بڑھا رہا ہے، بھارت میں غیر متوازن ہوتی جارہی ہے
بھارت کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور چین کی آبادی تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ پہلے بات کرتے ہیں چین کی۔ قریب 3 کروڑ مردوں کو کبھی بیویاں نہیں ملتیں تو کبھی بزرگ لوگوں کا توازن چین میں بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ سال 2014ء میں اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 37 لاکھ کم لوگ کام کاجی عمر کے تھے۔رد عمل کے طور پر ایک سخت قانون کو چین ختم کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ یہ قانون تھا ’’ایک بچے کی نیتی‘‘ چین نے اب ہر پریوار میں دو بچے ہونے کا قانون بنایا ہے لیکن دو بچوں کی حد ہے۔ دوسری جانب برٹین ، بھارت جیسے ملک ہیں جہاں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ برٹین میں آبادی کا بڑھنا وہاں کی سرکار کیلئے فکر کا موضوع بن گیا ہے۔
ادھر اپنے ملک میں آبادی بڑھنے اور آبادی میں توازن نہ ہونے پر راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے تشویش ظاہر کی ہے۔آر ایس ایس نے دیش میں آبادی میں اضافے سے متعلق غیر توازن پر تشویش جتاتے ہوئے اس سنگین سمسیا کے مد نظر راشٹر کی آبادی کی نیتی پھرسے مقرر کرنے کی ضرورت جتائی اور کہا کہ نئی نیتی سبھی پر مساوی طور سے لاگو کی جانی چاہئے۔ رانچی میں منعقد تین روزہ اکھل بھارتیہ کاریہ کاری منڈل کی بیٹھک کے بعد علاقے کے سنگھ چالک اشوک سوہنی نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کے دوران آبادی میں اضافے سے متعلق پاس کئے گئے پرستاؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دیش میں دستیاب وسائل ، مستقبل کی ضروریات اور آبادی میں غیرتوازن کی سمسیا کو دھیان میں رکھ کر نئی آبادی نیتی کا تعین کیا جانا ضروری ہے اور یہ سبھی پر مساوی طور سے لاگو ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح سرحد پار سے ہورہی گھس پیٹھ پر پوری طرح سے لگام لگانے کی مرکزی سرکار سے مانگ کی گئی ہے۔ سال2011 ء کی مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر کئے گئے تجزیئے سے فرقوں کی آبادی کے تناسب میں جو تبدیلیاں سامنے آئی ہیں اس کے مد نظر آبادی نیتی پر دوبارہ غور کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ شری سوہنی نے پرستاؤ کے حوالے سے کہا کہ سال1991 سے2011ء کے درمیان آبادی کے اضافے میں بھاری فرق کی وجہ سے آبادی میں جہاں بھارت میں پیدا ہوئے مذاہب کے ماننے والوں کا تناسب 98 فیصد سے گھٹ کر 83 فیصد رہ گیا ہے وہیں مسلم آبادی کا تناسب لگ بھگ 10 فیصد سے بڑھ کر14 فیصد کو پار کر گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دیش کے سرحدی راجیوں ، آسام، پشچمی بنگال اور بہار کے سرحدی ضلعوں میں تو مسلم آبادی کا اضافہ قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے اور یہ بنگلہ دیش سے غیر قانونی گھس پیٹھ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ نارتھ ایسٹ ریاستوں میں بھی ایک خاص پنتھ کے لوگوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی آبادی ایک سنگین سوال ہے اس پر فوراً غور وفکر کر کوئی ٹھوس نیتی تیار کرنی ہوگی۔
ادھر اپنے ملک میں آبادی بڑھنے اور آبادی میں توازن نہ ہونے پر راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے تشویش ظاہر کی ہے۔آر ایس ایس نے دیش میں آبادی میں اضافے سے متعلق غیر توازن پر تشویش جتاتے ہوئے اس سنگین سمسیا کے مد نظر راشٹر کی آبادی کی نیتی پھرسے مقرر کرنے کی ضرورت جتائی اور کہا کہ نئی نیتی سبھی پر مساوی طور سے لاگو کی جانی چاہئے۔ رانچی میں منعقد تین روزہ اکھل بھارتیہ کاریہ کاری منڈل کی بیٹھک کے بعد علاقے کے سنگھ چالک اشوک سوہنی نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کے دوران آبادی میں اضافے سے متعلق پاس کئے گئے پرستاؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دیش میں دستیاب وسائل ، مستقبل کی ضروریات اور آبادی میں غیرتوازن کی سمسیا کو دھیان میں رکھ کر نئی آبادی نیتی کا تعین کیا جانا ضروری ہے اور یہ سبھی پر مساوی طور سے لاگو ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح سرحد پار سے ہورہی گھس پیٹھ پر پوری طرح سے لگام لگانے کی مرکزی سرکار سے مانگ کی گئی ہے۔ سال2011 ء کی مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر کئے گئے تجزیئے سے فرقوں کی آبادی کے تناسب میں جو تبدیلیاں سامنے آئی ہیں اس کے مد نظر آبادی نیتی پر دوبارہ غور کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ شری سوہنی نے پرستاؤ کے حوالے سے کہا کہ سال1991 سے2011ء کے درمیان آبادی کے اضافے میں بھاری فرق کی وجہ سے آبادی میں جہاں بھارت میں پیدا ہوئے مذاہب کے ماننے والوں کا تناسب 98 فیصد سے گھٹ کر 83 فیصد رہ گیا ہے وہیں مسلم آبادی کا تناسب لگ بھگ 10 فیصد سے بڑھ کر14 فیصد کو پار کر گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دیش کے سرحدی راجیوں ، آسام، پشچمی بنگال اور بہار کے سرحدی ضلعوں میں تو مسلم آبادی کا اضافہ قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے اور یہ بنگلہ دیش سے غیر قانونی گھس پیٹھ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ نارتھ ایسٹ ریاستوں میں بھی ایک خاص پنتھ کے لوگوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی آبادی ایک سنگین سوال ہے اس پر فوراً غور وفکر کر کوئی ٹھوس نیتی تیار کرنی ہوگی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں