نیپال کی چین پرستی کشیدگی پیدا کررہی ہے
بھارت نیپال کے رشتوں میں حالیہ دنوں میں آئی کڑواہٹ کو دور کرنے کے لئے نیپال کے نائب وزیر اعظم کمل تھاپا بھارت تشریف لائے۔تھاپا نے کہا کہ بھارت کے ساتھ جو بھی غلط فہمیاں تھیں وہ اب دور ہوگئی ہیں۔ اپنے سہ روزہ دورہ کے آخری دن پچھلی پیر کو وطن واپسی سے پہلے مسٹر تھاپا نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ اس دوران قومی سکیورٹی مشیر اجیت ڈوبال بھی موجودتھے۔
7 صوبائی ماڈل والے نئے آئین کے احتجاج میں مدھیشی اور تھارو فرقہ پچھلے ایک مہینے سے زیادہ وقت سے سڑکوں پر ہے اوراس نے سرحد پر ناکہ بندی کررکھی ہے جس وجہ سے بھارت سے نیپال کو کھانے پینے کی چیزوں سے لیکر پیٹرولیم مصنوعات کی سپلائی بری طرح متاثر ہوئی۔ نیپال کئی بار کہہ چکا ہے کہ وہ چین کی طرف سے چیزوں کی سپلائی کے راستے کھولنے کا پلان بنا رہا ہے۔نیپال کی اس چین پرستی سے ہی بھارت کافی ناراض ہے۔ نیا آئین بننے کے بعد مدھیشی تحریک کو لیکر ہو رہے بھارت مخالف پروپگنڈہ سے مرکزی سرکار بھی فکر مند ہے۔ بھارت نے نیپال سے صاف صاف کہا ہے کہ وہ اپنے اندرونی مسئلے کا حل خود کرے۔ بھارت میں سبھی کا خیال ہے کہ نیپال میں جاری تحریک سے وہ خود نپٹے۔ مظاہرین کی واجب مانگوں کو سلجھائے۔ تھاپا کو صاف جواب ملا کہ سرحد پر ناکہ بندی مدھیشی تحریک کے سبب ہے۔ بھارت کے مالبردار ٹرکوں کو نیپال کے اندر سکیورٹی دینے کا ذمہ نیپال سرکار کاہے بھارت کا نہیں۔ نیپال انہیں سکیورٹی دے تو سامان بھیجنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔
نیپالی نائب وزیر اعظم کو مودی سے کافی توقعات تھیں، ان کا خیال تھا کہ مودی خاص طور سے مداخلت کر معاملہ سلجھا سکتے ہیں لیکن مودی نے نیپالی نمائندہ وفد کو مایوس کیا۔ انہوں نے صاف لہجے میں کہا کہ نیپال ایک خودمختار ملک ہے۔ اس میں بھارت سیدھے مداخلت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اشاروں اشاروں میں کہا کہ نیپال میں بھارت مخالف پروپگنڈے سے بھارت کی تشویش حق بجانب ہے۔ چین کے تئیں نیپال کا زیادہ جھکاؤ بھارت کو اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ بھارت نے تو اسے اچھا پڑوسی مانتے ہوئے تعاون کا ہاتھ بڑھایا تھا لیکن اس طرح کا کوئی جواب نہیں ملا جیسا ملنا چاہئے تھا۔ مودی نے یہ بھی کہا کہ بھارت پر مدھیشی تحریک کو سپورٹ کرنے کا الزام غلط ہے اب یہ نیپال کو طے کرنا ہے کہ اسے نیپال کی حمایت و دوستی چاہئے یا پھر چین کا ساتھ؟
7 صوبائی ماڈل والے نئے آئین کے احتجاج میں مدھیشی اور تھارو فرقہ پچھلے ایک مہینے سے زیادہ وقت سے سڑکوں پر ہے اوراس نے سرحد پر ناکہ بندی کررکھی ہے جس وجہ سے بھارت سے نیپال کو کھانے پینے کی چیزوں سے لیکر پیٹرولیم مصنوعات کی سپلائی بری طرح متاثر ہوئی۔ نیپال کئی بار کہہ چکا ہے کہ وہ چین کی طرف سے چیزوں کی سپلائی کے راستے کھولنے کا پلان بنا رہا ہے۔نیپال کی اس چین پرستی سے ہی بھارت کافی ناراض ہے۔ نیا آئین بننے کے بعد مدھیشی تحریک کو لیکر ہو رہے بھارت مخالف پروپگنڈہ سے مرکزی سرکار بھی فکر مند ہے۔ بھارت نے نیپال سے صاف صاف کہا ہے کہ وہ اپنے اندرونی مسئلے کا حل خود کرے۔ بھارت میں سبھی کا خیال ہے کہ نیپال میں جاری تحریک سے وہ خود نپٹے۔ مظاہرین کی واجب مانگوں کو سلجھائے۔ تھاپا کو صاف جواب ملا کہ سرحد پر ناکہ بندی مدھیشی تحریک کے سبب ہے۔ بھارت کے مالبردار ٹرکوں کو نیپال کے اندر سکیورٹی دینے کا ذمہ نیپال سرکار کاہے بھارت کا نہیں۔ نیپال انہیں سکیورٹی دے تو سامان بھیجنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔
نیپالی نائب وزیر اعظم کو مودی سے کافی توقعات تھیں، ان کا خیال تھا کہ مودی خاص طور سے مداخلت کر معاملہ سلجھا سکتے ہیں لیکن مودی نے نیپالی نمائندہ وفد کو مایوس کیا۔ انہوں نے صاف لہجے میں کہا کہ نیپال ایک خودمختار ملک ہے۔ اس میں بھارت سیدھے مداخلت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اشاروں اشاروں میں کہا کہ نیپال میں بھارت مخالف پروپگنڈے سے بھارت کی تشویش حق بجانب ہے۔ چین کے تئیں نیپال کا زیادہ جھکاؤ بھارت کو اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ بھارت نے تو اسے اچھا پڑوسی مانتے ہوئے تعاون کا ہاتھ بڑھایا تھا لیکن اس طرح کا کوئی جواب نہیں ملا جیسا ملنا چاہئے تھا۔ مودی نے یہ بھی کہا کہ بھارت پر مدھیشی تحریک کو سپورٹ کرنے کا الزام غلط ہے اب یہ نیپال کو طے کرنا ہے کہ اسے نیپال کی حمایت و دوستی چاہئے یا پھر چین کا ساتھ؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں