گیتا بھارت تو لوٹ آئی پر کہانی میں نیا موڑ آگیا

کچھ ماہ پہلے بالی ووڈ فلم ’بجرنگی بھائی جان‘ آئی تھی۔ جس کے بعد پاکستان میں رہ رہی گونگی بہری لڑکی گیتا کی وطن واپسی ممکن ہوسکی لیکن بھارت کی سرزمیں پر قدم رکھنے کے ساتھ ہی گیتا کی کہانی میں ایک نیا موڑ آگیا۔ بہارکے ضلع سہرسہ کے جس مہتو خاندان کے فوٹو کو گیتا نے اپنے ماں باپ کے طور پر پہچاناتھا ، انہیں جب اس نے آمنے سامنے دیکھا تو بالکل نہیں پہچان سکی۔ بیٹی کو گلے لگانے کی تمنا لئے پچھلے کئی دنوں سے دہلی میں ڈیرا ڈالے جناردن مہتو کو زبردست مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں قریب 15 سال تک رہنے کے بعد بھارت کی بیٹی آخر کار پیر کے روز اپنے وطن لوٹ آئی تھی۔ پاکستان سے ایدی فاؤنڈیشن کے ذمہ داران کے ساتھ گیتا پی آئی اے کے طیارے سے دہلی آئی تو وزارت خارجہ اور پاکستانی ہائی کمیشن کے سینئر افسران اس کا استقبال کرنے کیلئے ہوائی اڈے پر موجود تھے ۔ کوئی ڈیڑھ دہائی پہلے بھٹکی ہوئی لڑکی کو اس کی منزل مل گئی۔ جب گونگی بہری گیتا غلطی سے بارڈر پار کر گئی تھی ۔ اگر انجانے میں سرحد پار کی ایک غلطی کو درکنار کردیں تو گیتا معاملے کی یہ داستاں غیر معمولی ہی کہی جائے گی۔ اس میں اس کی پرورش کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ایدی فاؤنڈیشن ،پاکستان کابھائی چارہ نبھانے والا سماج اور وہاں کے رینجر و سرکار نے شاندار رول ادا کیا ہے اس کیلئے ان سب کا شکریہ۔ اس کے ساتھ حکومت ہند بھی مبارکباد کی مستحق ہے جس نے سنجیدگی دکھائی ۔ یہ اچھا ہوا کہ ہندوستان کی وزیر خارجہ محترمہ سشما سوراج نے گیتا کی واپسی میں پاکستان سرکار کی جانب سے ملے تعاون کا نہ صرف ذکر کیا بلکہ ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ تمام تلخی اور ڈپلومیٹک سطح پر ٹکراؤ کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان ایسے رشتے بنے رہنے چاہئیں اور عام لوگوں کو کسی طرح کی کوئی دشواری نہ ہو۔ گیتا کی واپسی کے ساتھ ہی ایک ایسے پاکستانی لڑکے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے جو ایک عرصے سے بھارت میں رہ رہا ہے اور کچھ وجوہات سے پاکستان نہیں لوٹ سکا۔ ایسے معاملوں میں بھی ہمدردانہ فیصلہ کرنا ضروری ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل ان قیدیوں کے معاملے میں بھی کی جانی چاہئے جو سزا پوری کرنے کے باوجود ایک دوسرے ملک کی جیلوں میں بند ہیں۔ دونوں ملکوں کو ان ماہی گیروں کے معاملے میں بھی ہمدردی دکھانے کی ضرورت ہے جو بھٹک کر ایک دوسرے کی سرحد پار کرجاتے ہیں۔ گونگی بہری گیتا کی 15 سال تک دیکھ بھال کرنے والے کراچی کے ایدی فاؤنڈیشن کو وزیر اعظم نریندر مودی نے 1 کروڑ روپے کا ڈونیشن دینے کا اعلان کیا۔ ابھی اس میں تھوڑا تضاد ہے کہ ایدی فاؤنڈیشن نے ڈونیشن لینے سے انکار کردیا ہے یا نہیں؟ ڈونیشن پر اس کشمکش کی شروعات تب ہوئی جب پاکستانی اخبار’ڈان‘ نے ایدی فاؤنڈیشن کے ترجمان کے حوالے سے خبر دی کہ ادارے نے ڈونیشن لینے سے منع کردیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ادارے کی طرف سے بعد میں بیان بھی دیا جائے گا۔ حالانکہ دیر شام ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہندوستانی حکام نے تصدیق کرنے کے لئے ایدی فاؤنڈیشن کے نمائندوں سے بات کی تھی اور انہوں نے ان رپورٹوں کو غلط بتایا کہ فاؤنڈیشن نے ڈونیشن لینے سے منع کردیا ہے۔ وزیر اعظم نے پیر کے روز 1 کروڑ روپے تحفے کے طور پر دینے کا اعلان کیا تھا۔ حالانکہ گیتا کی واپسی بھی سیاست سے الگ نہیں رہ پائی۔ پاکستان نے اس کے بدلے سینکڑوں قیدیوں کی رہائی کی مانگ رکھ دی۔ یہ بھی کم بدقسمتی نہیں ہے کہ ایک طرف تو وہ گیتا کو واپس بھیج کر انسانیت کی مثال پیش کرتا ہے تو وہیں جموں و کشمیر میں رہ رہ کر گولہ باری سے باز نہیں آتا۔ بہتر ہو کہ پاکستان نے گیتا کی واپسی کو لیکر جیسی انسانی ہمدردی کی مثال پیش کی ہے و ہیں وہ بھارت کے دیگر علاقوں میں پیدا خدشات کو بھی دور کرنے کی کوشش کرے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!