مرکزی وزیر گری راج سنگھ پھر تنازعات میں پھنسے

مودی حکومت کے بڑ بولے وزیر گری راج سنگھ ایک مرتبہ پھر تنازعات میں گھر گئے ہیں۔ پہلے بھی بے تکے بیان دے چکے گری راج سنگھ نے کانگریس صدر سونیا گاندھی کے بارے میں غیر ضروری اور بے تکا تبصرہ کیا۔ انہوں نے منگل کے روز اخبار نویسوں سے کہا تھا ’’اگر راجیو گاندھی نے کسی نائیجیریا خاتون سے شادی کی ہوتی اور اگر سونیا گاندھی گوری چمڑی والی نہیں ہوتیں تو کیا کانگریس ان کی لیڈر شپ قبول کرلیتی‘‘حاجی پور میں کئے گئے اس بیہودہ اور نسلی تبصرے سے سیاسی بونڈر مچنا ہی تھا۔ گری راج سنگھ نے بیٹھے بٹھائے مصیبت مول لے لی۔ اس پر تعجب نہیں کہ حریف سیاسی پارٹی ان کے بیان کواشو بنانے میں جٹ گئی ہے۔ اس سے پہلے انہی گری راج سنگھ نے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی پر بھی طنز کسا تھا۔ گری راج نے راہل پر کہا تھا ’’راہل سرگرم سیاست سے چھٹی لیکر غائب ہوگئے ہیں۔ وہ تو لاپتہ ملیشیائی طیارے کی طرح ہوگئے ہیں جسے کوئی تلاش نہیں کرپا رہا ہے۔ تصور کریں ہماری جگہ کانگریس اقتدار میں ہوتی اور راہل وزیر اعظم بن گئے ہوتے اور 47 دنوں سے زیادہ غائب ہوجاتے‘‘۔ گری راج سنگھ کے بیان پر کانگریس سمیت تمام سیاسی پارٹیوں اور خاتون انجمنوں نے تلخ مذمت کی ہے۔ نائیجریا نے بھی خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی رائے زنی برداشت نہیں کی جائے گی۔ نائیجریائی ہائی کمیشن نے گری راج سنگھ کے تبصرے پر سخت اعتراض ظاہر کرتے ہوئے ان سے معافی مانگنے کو کہا ہے۔ نگراں ہائی کمشنر او بی اوکونگور نے کہا کہ اس بارے میں وزارت خارجہ میں شکایت درج کرائی جاسکتی ہے کیونکہ سنگھ کا تبصرہ بیحد خراب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں وزیر موصوف اپنا تبصرہ واپس لیں اور نائیجریائی عوام سے معافی مانگیں۔ کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے کہا کہ مودی کے وزرا اور بھاجپا کے ممبران پارلیمنٹ کے درمیان بے شرمی کی حدیں توڑنے کی دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو خوش کرنے کے چکر میں وہ اپنا آپا کھو بیٹھے ہیں۔ سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا نے کہا کہ اس خاتون کے بارے میں بولنے کا یہ کیسا طریقہ ہے جس نے زندگی میں دکھ سہے اور دیش کے لئے اپنے عزیزوں کو کھو دیا ہے۔جب حکومت و اس کے وزیر ان کا احترام نہیں کرسکتے ہیں تو دیگر خواتین کے تئیں ان کا کیا رویہ ہوگا۔ معاملے کے طول پکڑنے کے بیچ بھاجپا پردھان امت شاہ کی سخت پھٹکار کے بعد گری راج سنگھ نے بیان پر افسوس جتایا ہے۔ خاص طور پر نائیجریا کی ناراضگی کے بعد امت شاہ نے گری راج سے فون پر بات چیت کرکے ان کو پھٹکارلگائی اور سوچ سمجھ کر بولنے کی نصیحت دی۔ مگر پارٹی نے گری راج کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کے اشارے نہیں دئے ۔ کانگریس میں وزیر گری راج کو برخاست کرنے اور وزیر اعظم نریندر مودی سے اس مسئلے پر اپنا موقف واضح کرنے کو کہا ہے۔ آرجے ڈی چیف لالو پرساد یادو نے خواتین انجمنوں سے گری راج سنگھ کو چوڑی پہنانے کی اپیل کی ہے۔ بڑی بات نہیں کہ پارلیمنٹ کا سیشن شروع ہونے پر گری راج کے بیان کو لیکر ہنگامہ ہوا۔ کیونکہ معاملہ مودی سرکار کے وزیر کا ہے اس لئے اسے اشو بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ گری راج سنگھ پہلے ایسے لیڈر نہیں جنہوں نے اپنے بیان سے مودی سرکار کی کرکری کرائی ہو۔ ایسے نیتا رہ رہ کر سامنے آتے رہے ہیں۔ افسوسناک یہ ہے کہ ایسے بیانات پر خود وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے ناراضگی ظاہر کرنے کے باوجود پارٹی و حکومت کے لیڈر صبر و تحمل کا ثبوت دینے کے تئیں سنجیدہ نہیں دکھائی دے رہے ہیں اور وزیر اعظم کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بڑی تعداد میں ایسے لیڈر ہیں جو پبلک زندگی میں بھی حریف پارٹیوں کے لیڈروں کے تئیں ناپسندیدہ اور نازیبا الفاظ کا استعمال کرنے میں قباحت نہیں کرتے۔ گری راج سنگھ پر سخت کارروائی ہونی چاہئے، محض معافی مانگنے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ چوتھی بار ہے جب انہوں نے اوٹ پٹانگ بیان دیا ہے۔ ایسے نیتا وزیر کے عہدے کے حقدار نہیں ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟