جمہوریت کی کمی سے ڈھائی برس میں بکھر گئی ’آپ‘ پارٹی

دہلی کی حکومت پر حال ہی میں برسراقتدار آئی عام آدمی پارٹی نے نیا گھمسان یقینی طور سے پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے لیکن جس طرح سے پارٹی میں رسہ کشی جاری ہے وہ سبھی کیلئے باعث تشویش ہے۔ دیش میں الگ طرح کی سیاست کا آغاز کرنے اور سوراج لانے کا دعوی کر،وجود میں آئی عام آدمی پارٹی کا کنبہ اپنی ہی پارٹی میں سوراج اور جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے محض ڈھائی برس میں بکھر رہی ہے۔ جن لوک پال تحریک سے نکلی اس پارٹی نے اپنے جنم سے ٹھیک پہلے سماجی کارکن انا ہزارے کو چھوڑدیا تھا تو اب پارٹی کے بانی ممبر پرشانت بھوشن ، یوگیندر یادو بھی پارٹی سے باہر ہونے کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ غور طلب ہے کہ کئی سینئر لیڈر پہلے ہی پارٹی کا ساتھ چھوڑ کر دوسری پارٹیوں کا دامن تھام چکے ہیں۔ سنیچر کو ہوئی قومی کونسل کی میٹنگ میں یوگیندر یادو، پرشانت بھوشن اور ان کے ساتھ ہی آنند کمار اور اجیت جھا کو بھی قومی ایگزیکٹو کونسل سے باہر کرنے کا فیصلہ یقینی طور سے افسوسناک ہے۔ عام آدمی پارٹی کی تشکیل رائج سیاست کے طور طریقے بدلنے اور نیا سیاسی کلچر قائم کرنے کے مقصد سے ہوئی تھی۔کئی بار اس کی باندگی بھی دیش کی جمہوریت میں اصولوں اور اقدار کا بڑا مول ہے۔ صبر اور برداشت اور دوسرے کے تئیں احترام اس کی بنیاد ہے۔زبانی نرم گوئی کی خلاف ورزی یہاں قطعی ناقابل قبول ہے لیکن عام آدمی پارٹی کے تنازعے میں جس طرح کی زبان کا استعمال ہو رہا ہے اسے قابل ملامت ہی کہا جاسکتا ہے۔خاص طور سے اس شخص کے منہ سے جو ایک ریاست کے وزیر اعلی کے آئینی عہدے پر فائض ہو۔ عام آدمی پارٹی اتنی جلدی اعلانیہ مقاصد سے بھٹک جائے گی،رسہ کشی اور نجی غرور کا شکار ہوجائے گی یہ تصور شاید ہی کسی نے کیا ہوگا۔ تمام رضاکار چاہتے تھے کہ پارٹی میں اٹھائے گئے اندرونی جمہوریت کے سوالوں پر غور ہو، ساتھ ہی پارٹی کا اتحاد بھی بنا رہے لیکن ان کو ان سنا کردیا گیا۔ یوگیندر یادو ،پرشانت بھوشن کو سیاسی معاملوں کی کمیٹی سے پہلے ہی ہٹا دیا گیا تھا۔ قومی ایگزیکٹو کونسل میں 8 کے مقابلے11 ووٹ سے یہ فیصلہ ہوا۔ صاف تھا کہ یہ ایگزیکٹو کی میٹنگ کی عام رائے نہیں تھی۔ اروند کیجریوال کی ضد کے دباؤ میں یہ فیصلہ ہوا تھا۔ قومی کونسل کی میٹنگ میں یہ فیصلہ جس طرح سے ہوا وہ جمہوری عمل کا مذاق ہی کہا جائے گا۔ جن پر پارٹی مخالف سرگرمیوں کا الزام لگایا گیا۔ انہیں اپنا موقف رکھنے کا موقعہ تک نہیں دیا گیا۔ کونسل کے ممبران کو زبردستی باہر ہی روک دیا گیا۔ کچھ لیڈروں سے مار پیٹ بھی کی گئی۔ عام آدمی پارٹی اور اس کے عہدیداران کے لئے سخت امتحان کی گھڑی ہے۔ نہ صرف عوام سے کئے گئے وعدوں پر کھرا اترنے کی بلکہ اپنے گھٹیانظریئے اور برتاؤ سے اسے خاکے میں کھرا اترنے کی جہاں سے متبادل لیڈروں کا وجود ابھرتا ہے۔ ان کی پارٹی کے اندرونی تعطل کا مسئلہ ہو یا دہلی میونسپل کارپوریشنوں کے تئیں برتاؤ کا ہو، کیجریوال صبر و تحمل کے ضروری پہلو کو کھوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کبھی خود کو چھوٹا بڑا بھائی ماننے والے اروند کیجریوال ۔ یوگیندر یادو کے درمیان خلیج اتنی گہری ہو گئی ہے کہ اسے بھرنا ممکن نہیں لگتا۔ انتظار بٹوارے باقاعدہ اعلان ہونے کا ہے۔ کم و بیش یوگیندر گروپ بھی مان چکا ہے کہ الگ ہونا طے ہے۔ اب ٹیم یادو کی کوشش یہی ہے کہ متبادل سیاست دینے کے دعوے سے نکلی عام آدمی پارٹی کو ٹیم کیجریوال کے پالے میں جانے نہ دیا جائے۔14 اپریل کو بلائی گئی میٹنگ اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ میٹنگ میں شکتی پردرشن کرکے یوگیندر یادو آپ پر اپنا دعوی ٹھونک سکتے ہیں۔ جمہوریت کی کمی میں محض ڈھائی برس میں بن کے بکھر گئی عام آدمی پارٹی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟