یمن پر سعودی حملے سے پھر سلگ گیا وسط مشرقی ایشیا

خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکے عرب ملک یمن شیعہ حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر سعودی عرب کی قیادت میں پچھلی جمعرات کو ہوائی حملے شروع کئے گئے۔ صدر عبدربہ منصورہادی کے دیش چھوڑ کر بھاگنے کے بعد یمن میں حالات بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ سعودی عرب میں دیش میں شیعوں کے گروپ حوثی ملیشیا کے باغیوں کے بڑھتے اثر کو روکنے کے لئے ان کے خلاف تابڑ توڑ حملے سے حالات اور زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب نے دعوی کیا ہے کہ اس نے پہلے ہی دن حوثی باغیوں کی ایئر فورس کو ناکام کردیا ہے۔ خیال رہے کہ راجدھانی صنعاء او ر کے آس پاس کے علاقوں میں ان باغیوں کا قبضہ ہے۔ امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر عادل الزبیر نے کہا کہ فی الحال کارروائی مختلف ٹاگیٹ پر ہوائی حملے تک محدود ہے لیکن یمن کی بین الاقوامی منظوری یافتہ سرکار کو بچانے کیلئے جو بھی کرنا ہوگا کیا جائے گا۔یمن کے صدرعبدربہ منصورہادی نے سعودی عرب سمیت دیگر ملکوں سے مدد مانگی تھی۔ اس لئے یہ فوجی آپریشن شروع کیا گیا ہے۔یمن میں 2011ء میں ارب انقلاب کے بعد سے ہی شیعہ سنی کے درمیان لڑائی چل رہی ہے جس میں سنیوں کوحمایت القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ جیسی تنظیمیں دے رہی ہیں۔ اس درمیان سنی اکثریتی عرب کے روایتی مانے جانے والے اور حوثی ملیشیا کے خاص اتحادی ایران میں سعودی عرب کی مذمت کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ سعودی عرب یہ حملے امریکہ کے اشارے پر کررہا ہے۔ ایران نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے اس خطرناک قدم سے یمن بکھر اور بٹ سکتا ہے۔ حوثی ملیشیا کے زیر کنٹرول ٹیلی ویژن چینل نے سعودی ہوائی حملوں کے بعد شہروں کی تصویریں دکھائی ہیں جس میں ہر طرف لاشوں کے ڈھیر اور زخمی لوگ نظر آرہے ہیں۔ یمن میں باغیوں کے خلاف اس لڑائی میں سعودی عرب کے ساتھیوں میں اب اردن بھی شامل ہوگیا ہے۔ خلیجی ملکوں کے اس اتحاد میں اردن کے علاوہ متحدہ عرب امارات ، مصر، کویت، بحرین اور قطر جیسے 10 سے زائد ملک شامل ہوگئے ہیں۔ امریکی صدر براک اوبامہ نے اس اتحاد کو فوجی اور انٹیلی جنس سپورٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ وہیں ایرانمیں یمن نے حوثی ملیشیا کی حمایت دینے کی بات کہی ہے۔ مانا جارہا ہے کہ یمن میں سرکار گرانے آئے حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ شیعہ حوثیباغیوں کی بڑھت کے چلتے امریکہ حامی صدر عبدربہ منصورہادی کو بھاگنا پڑا۔ سعودی عرب کی قیادت والے بین الاقوامی اتحاد کے یمن میں حملے اسلامی دنیا کو لمبی شیعہ سنی جنگ میں پھنس جانے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔عراق اور شام میں ’’خلافت‘‘ (اسلامک اسٹیٹ۔ آئی ایس) بچاؤ کرنے والے کٹرپسند سنی گروپ کے خلاف لڑائی میں ایران نے اہم کردار نبھایا ہوا ہے۔ آئی ایس ، حوثی اور القاعدہ اپنے کٹر پسند نظریئے کی وجہ سے پورے علاقے میں تشدد اور دہشت گردی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔سوال یہ ہے کیا حوثی ، آئی ایس اور باقی شدت پسند گروپوں کوپست کیا جاسکے گا؟ یہ ممکن وآسان ہوتا ہے اگر شیعہ اور سنی دونوں شدت پسندوں کے خلاف سعودی عرب اور ایران سمیت سبھی دیشوں میں بے چینی ہے جبکہ موجودہ حالات میں اسلام کے ان دونوں فرقوں کا آمنے سامنے آکھڑا ہونا درحقیقت خوفناک ہے۔ بہرحال مغربی ایشیا میں بھڑکی تازہ لڑائی کا اثر تیل کے بازار پر بھی پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ سعودی حملوں کے ساتھ کچے تیل کا بھاؤ ڈھیڑ ڈالر فی بیرل بڑھ گیا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ موجودہ جنگ شدت پسندی کو تباہ کرنے کا اپنا مقصد جلد حاصل کرتے ہوئے اس کو جلد سے جلد ختم کیا جائے۔اگر لڑائی یمن میں ہی مرکوز رہتی ہے اور پھیلتی نہیں ہے تو اس کا اقتصادی اثر زیادہ نہیں ہوگا لیکن ہمیں مہنگے تیل کی مار تو جھیلنی پڑسکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟