جموں وکشمیر میں پرانے زخم بھرے نہیں، نئی مصیبتیں کھڑی ہوگئیں

سرزمیں پر جنت کہی جانے والی کشمیر وادی میں ان دنوں پھر چاروں طرف تباہی کا منظردکھائی دے رہا ہے۔ کشمیرکا دور دراز علاقہ پانی کے بھراؤ کی سنگین حالات کی کہانی بیاں کررہا ہے۔تمام بازار بند ہیں اور لوگ اپنے گھروں کی بالائی منزل میں بیٹھ کر چاروں طرف جمع پانی کو دیکھ کر خوفزدہ ہیں۔ کہیں یہ پچھلے ستمبر کی تباہی کی شروعات تو نہیں ہے؟ بارش مسلسل ہورہی ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ محکمہ موسمیات نے 3 اپریل تک موسم خراب رہنے کی پیش گوئی کرکے لوگوں کی دھڑکنیں بڑھا دی ہیں۔ لوگ کنبوں سمیت محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کررہے ہیں۔ ڈل جھیل کے پانی کی سطح میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے باوجود جھیل کے کنارے شکارے والے سیاحوں کا انتظار کررہے ہیں۔ کشمیر وادی میں تازہ سیلاب کی صورتحال اتنی سنگین فی الحال تو نہیں ہے لیکن اس سے شہریوں کے دل میں گزشتہ ستمبر 2014ء کے خوفناک ترین سیلاب کی یادیں تازہ ہوگئی ہیں۔پچھلے سیلاب میں جس حد تک تباہی ہوئی تھی اور کشمیر وادی کا ہر شہری کسی نہ کسی طرح سے متاثر ہوا تھا اس کے اثر کو اب بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ اس لئے سرینگر میں جب جہلم ندی سیلاب کے خطرے کے نشان سے نیچے بہہ رہی تھی، تبھی لوگوں نے محفوظ مقامات پر جانا شروع کردیا تھا۔ مسلسل بارش سے پیر کی صبح جہلم ندی کی آبی سطح خطرے کے نشان سے اوپر چلی گئی تھی۔ اور ندی کے قریب رہنے والے لوگوں کو وہاں سے ہٹانے کا کام شروع کردیا گیا۔ کشمیر کے دیہی علاقوں میں سیلاب کا اثر پہلے سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ کئی راستے سیلاب کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں اور کچھ لوگوں کے مرنے کی خبریں بھی آئی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ستمبر کے واقعے سے سبق لے کر انتظامیہ اس مرتبہ کافی چوکس ہے اور تیزی سے راحت رسانی اور بچاؤ کا کام ہورہا ہے۔ جموں وکشمیر میں آئے سیلاب سے بچاؤ اور راحت کی کمان مرکزی حکومت نے سنبھال لی ہے۔ صوبے کے حالات پر وزیر اعظم نریندر مودی کی سیدھی نظر ہے۔وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ریاست کے وزیر اعلی مفتی محمد سعید سے بات کر حالات کا جائزہ لیا۔ وزیر داخلہ نے مفتی کو با آور کیا ہے کے راحت سامان کم سے کم وقت میں جہازوں کے ذریعے صوبے کے متاثرہ علاقوں میں پہنچایا جائے گا۔ سرینگر میں پھنسے سیاح جلد سے جلد اپنے خاندانوں سمیت واپس لوٹنے کی جگت میں ہیں۔ کئی ہوٹلوں کی ایڈوانس بکنگ کینسل ہوچکی ہے۔ تمام مکان ساڑھے تین فٹ پانی سے گھرے ہوئے ہیں۔پانی کی نکاسی کے لئے پمپ سیٹ لگائے گئے ہیں ،لیکن وہ کافی نہیں ہیں۔ بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بنا ہوا ہے۔ جموں کا علاقہ بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ حال ہی میں اقتدار سنبھالنے والی مفتی محمد سعید اور بھاجپا اتحادی حکومت کے لئے یہ چنوتی بن کر آئی ہے کہ وہ کتنی جلد اور زیادہ سے زیادہ متاثرہ لوگوں کو امداد پہنچا سکتے ہیں؟ محفوظ نکال سکتے ہیں۔ اس فوج پر جس پر پتھراؤ کرتے کشمیری اب اسی کے سہارے ہیں۔ فوج پوری طرح بچاؤ و راحت کے کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ جموں و کشمیر میں پرانے زخم بھرے نہیں کہ نئی مصیبتیں سر پر آگئی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟