اے۔ کے ہی سب کچھ ہیں ان کے خلاف آواز اٹھانا برداشت نہیں

دو دن پہلے ہی میں نے اسی کالم میں لکھا تھا کہ ’آپ‘ پارٹی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے اور کنوینر اروند کیجریوال کے خلاف بغاوتی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ بہت بڑی جیت یا بہت بڑی ہارپچانا آسان نہیں ہوتا، اور یہی ہوا۔ زبردست اکثریت کے ساتھ دہلی کے اقتدار میں آئی عام آدمی پارٹی میں جیسا گھماسان چھڑا ہے اس سے پارٹی اور لیڈرشپ پر کئی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔اقتدار میں آئے ابھی چنددن ہی ہوئے ہیں لیکن اس میں اندرونی جھگڑوں کاآتش فشاں پھوٹ پڑا ہے۔ پارٹی میں اروند کیجریوال ہی سب کچھ ہیں اور وہ کسی قسم کی نہ تو تنقید برداشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کی لیڈر شپ کو کوئی چنوتی ہی دے سکتا ہے۔’آپ‘ کے گذشتہ28 مہینے کی تاریخ میں جن جن لوگوں نے اروند کیجریوال کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کی انہیں باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔دہلی اسمبلی چناؤ 2015 سے پہلے پارٹی سے تین اہم لیڈروں کی پارٹی سے دلچسپی ختم ہوگئی اور اپنے اپنے علاقوں کے ماسٹر لوگوں کو باہر کا راستہ دیکھنا پڑا۔ پارٹی میں سب سے پہلے لکشمی نگر سے سال2013 میں اسمبلی چناؤ جیتنے والے ممبر اسمبلی ونود کمار بنی کو پارٹی سے الگ کیا گیا۔ نتیجتاً بنی نے ناراضگی جتاتے ہوئے پارٹی سے بغاوت کردی۔ بنی کے بعد لوک سبھا چناؤ کے دوران شازیہ علمی نے پارٹی چھوڑی اور بھاجپا میں شامل ہوگئیں۔ پارٹی کے بانیوں میں سے ایک اشونی اپادھیائے کا بھی یہی حشر ہوا۔ اب باری آئی جانے مانے وکیل اور بدعنوانی جیسے اہم معاملوں پر بڑے پیمانے پر پالے کھیلنے والے پرشانت بھوشن اور سماجیات کے ماہر و آپ نیتا و تھنک ٹیک کے ممبر یوگیندر یادو کی۔بدھوار کو پارٹی کی سب سے طاقتور پالیٹیکل افیئر کمیٹی (پی اے سی) سے ان دونوں کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔خاص بات یہ ہے کہ ان دونوں نیتاؤں سے پہلے تو استعفیٰ دینے کی پیشکش کی گئی لیکن جب دونوں نے انکارکردیا تو کمیٹی میں ووٹنگ کے ذریعے انہیں باہر کردیا گیا۔ اتنے سینئر نیتاؤں سے ایسا سلوک کیا گیا ہے جیسے دودھ سے مکھی کو باہر نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ عام آدمی پارٹی میں پڑی دراڑکاموازنہ ہم آسام میں عرصے پہلے پرفل کمار مہنت کی سرکار سے بھی کرسکتے ہیں۔مہنت کی سرکار بھی کیجریوال سرکار کی طرز پر ہی اچانک بنی تھی اور سرکار کے قیام کے بعد پھوکن کی قیادت میں ناراض لوگوں کا ایک نیا خیمہ تیار ہوگیا تھا۔ کسی بھی سیاسی پارٹی میں اس طرح من مٹاؤ کی حالت بننا حیرت خیز نہیں ہے لیکن ایک نئی پارٹی کے لئے فوری طور پر نقصان ہونے کے خدشہ سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پارٹی کے اندر ایسی اٹھا پٹخ کو ایک اچھا اشارہ نہیں مانا جاسکتا۔ یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن پارٹی کے مضبوط پلر ہیں ان کو اپنے ساتھ باندھے رکھنے میں کیجریوال کامیاب نہیں رہے۔آندولن سے پیدا ہوئی اس پارٹی کا کردار بدل رہاہے اور اس بدلاؤ کے عمل کا یہ نتیجہ ہے ۔ کیجریوال کیمپ نے یہ صاف جتادیا ہے کہ یہاں کسی اور کا اثر نہیں چلے گا۔ اس کے باوجود لگتا یہ ہے کہ یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن پارٹی نہیں چھوڑنا چاہیں گے وہ اس مدعے کو آپ کی نیشنل کونسل ، آل انڈیا باڈی آف لیڈرس ، ممبروں اور والنٹیئر کے سامنے اٹھائیں گے۔ ان سبھی کے ساتھ بیٹھکیں اس مہینے کے آخرمیں ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دونوں کی یہاں اچھی پیٹ ہے۔ میٹنگ کے بعد پرشانت بھوشن نے کہا کے اکثریت سے فیصلہ لیا گیا ہے کہ ہم لوگ اب پی اے سی میں نہیں رہیں گے۔پارٹی کے اندر ہونے والے واقعات سے دہلی والوں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ دہلی کی جنتا کو اپنے کام سے مطلب ہے وہ کیجریوال میں بھروسہ کرتی ہے اور اگر ان کا بھروسہ ٹوٹتا ہے تو اس کا خمیازہ بھی کیجریوال کو بھگتنا پڑے گا۔ بیشک عام آدمی پارٹی ایک نیا پیغام اور امید لے کر آئی ہے لیکن وہ جس طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے اس سے یہ اندیشہ ہو رہا ہے کہ وہ کہیں ایک معمولی پارٹی میں نہ تبدیل ہوجائے۔اس اندیشے کو صرف کیجریوال ہی دور کرسکتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟