ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے عبدالکریم ٹنڈا بری

26/11 کے حملے کے بعد جاری کی گئی 20 اہم آتنکیوں کی فہرست میں شامل رہے عبدالکریم ٹنڈا کو عدالت کے ذریعے الزام سے بری کرنا دہلی پولیس اور ہماری دیگر سلامتی ایجنسیوں کے لئے کرارا جھٹکا ہے۔ آتنکی تنظیم لشکر طیبہ کے بم ماہر ٹنڈا کو پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے آتنک وادی اور ایکسپلوزیو ایکٹ (ٹاڈا) کے ایک معاملے میں بری کردیا ہے۔ حالانکہ اسے ابھی جیل میں ہی رہنا پڑے گا کیونکہ اس کے خلاف کئی معاملے عدالت میں زیر التوا ہیں۔پولیس کی اسپیشل سیل نے16 اگست 2013ء کو ٹنڈا کو بھارت ۔ نیپال سرحد سے گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے لشکر طیبہ کے بم ماہر کو پکڑا ہے لیکن جب عدالت میں ثبوت پیش کرنے کی باری آئی تو جانچ ایجنسی کے ہاتھ میں مقدمہ چلانے لائق ثبوت بھی نہیں ملے۔ پٹیالہ ہاؤس واقع ایڈیشنل سیشن جج نینا بنسل کرشن کی عدالت نے پولیس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ بچاؤ فریق کے ترک استغاثہ کی دلیل پر بھاری پڑ گئے۔ ایسا کوئی ثبوت ہی نہیں ہے جس کی بنیاد پر عبدالکریم ٹنڈا کے خلاف اس معاملے میں مقدمہ چلایا جا سکے۔ پولیس کے سارے دعوے کمزور پڑ گئے جس میں پولیس نے اسے سلسلہ وار بم دھماکے کی سازش کا ماسٹر مائنڈ بتایا تھا۔ دہلی پولیس نے ٹنڈا کے خلاف 33 معاملے درج کئے تھے لیکن ابھی تک اس کی گرفتاری صرف4 معاملوں میں ہی ہے جن میں سے ایک میں وہ بری ہوگیا ہے جبکہ تین معاملوں میں چارج شیٹ پر بحث پوری ہوچکی ہے۔ فیصلہ آنا باقی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹنڈا کی گرفتاری کے ایک سال سات مہینے بعد بھی پولیس نے اسے 29 معاملوں میں گرفتار نہیں کیا ہے۔جس طرح ٹنڈا جیسے خطرناک آتنکی کے خلاف بھی پولیس مناسب ثبوت پیش نہیں کرسکی وہ فکر کا موضوع ہے۔کیا اسی طریقے سے ہم آتنک وادیوں سے لڑیں گے۔ خانہ پوری کرنے کے لئے لگتا ہے آتنکیوں کو گرفتار تو کر لیتے ہیں لیکن ان کے خلاف کیس صحیح طریقے سے تیار کرنے میں کوتاہی برتی جاتی ہے اسی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ خونخوار آتنکیوں کی رہائی ہوجاتی ہے۔ پھر اس سے پولیس کی قابلیت پر بھی سوالیہ نشان لگتا ہے کہ وہ اپنے کام کے تئیں کتنی سنجیدہ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟