دودھیا سے باہوبلی بنے ڈی پی یادو کا لمبا سفر

قریب23 سال پہلے دادری کے ممبر اسمبلی مہندر سنگھ بھاٹی کے قتل کے معاملے میں منگل کے روز دہرہ دون کی سی بی آئی عدالت نے یوپی کے باہوبلی اور سابق ایم پی ڈی پی یادو سمیت چار افراد کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔غور طلب ہے کہ غازی آباد کے دادری علاقے سے ممبر اسمبلی مہندر سنگھ بھاٹی کو 13 دسمبر 1992 ء میں دادری ریلوے کراسنگ پر گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس معاملے میں ڈی پی یادو سمیت کل 7 افراد کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی تھی جس میں سے تین لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔ نوئیڈا کے گاؤں سرف آباد میں تیجپال یادو کے گھر دھرمپال یادو کی پیدائش25 جولائی1950 کو ہوئی تھی۔ دھرمپال یادو(ڈی پی یادو) نے ابتدا میں دودھ بیچنے کا کام شروع کیا۔ 70 کی دہائی میں آہستہ آہستہ وہ شراب کے دھندے میں اتر گئے۔80 کی دہائی میں مغربی اترپردیش میں گینگ وار شروع ہوچکی تھی تب ڈی پی یادو کا نام بھی جرائم کی دنیا میں لیا جانے لگا۔ 1989 میں ملائم سنگھ یادو کے ساتھ جڑ کر ڈی پی یادو نے سیاست میں اپنی جڑیں جمائیں۔ دھرمپال یادو مغربی اترپردیش کے باہو بلی سیاستداں ہیں اور اترپردیش کی ایک آدھ ہی پارٹی ایسی رہی ہوگی جس میں وہ نہ رہے ہوں۔ ڈی پی یادو کا بیٹا وکاس یادو سرخیوں میں چھائے جیسیکا لال اور نتیش کٹارا قتل کانڈ میں ملزم رہا ہے اور فی الحال جیل میں بند ہے۔ ڈی پی یادو اور مہندر سنگھ بھاٹی کسی وقت میں ایک ساتھ ہوا کرتے تھے بلکہ بھاٹی نے ہی یادو کو سیاست میں اینٹری کرائی تھی۔
1989 ء میں مرکز میں وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی قیادت والی راشٹریہ مورچہ حکومت بنی تھی اور اس حکومت کے گرنے کے بعد جنتا دل کے کئی ٹکڑے ہوگئے تھے، اسی دور میں بھاٹی اور یادو الگ الگ پارٹیوں میں چلے گئے تھے۔ اور دونوں کے درمیان دشمنی ہوگئی جس کا نتیجہ بھاٹی کے قتل کی شکل میں سامنے آیا۔ کسی سنسنی خیز جرائم کی کہانی کی طرح دکھائی دینے والا یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں ہے دیش کے تمام حصوں میں اسی طرح کے واقعات عام ہیں۔کچھ علاقوں میں جرائمی کرن کم ہے کچھ میں بہت زیادہ۔ اترپردیش ۔ بہار میں ایسے لیڈروں کی تعدا سینکڑوں میں ہے جو ممبر اسمبلی، ایم پی یا وزیر کے عہدے تک پہنچے ہیں اور جن کی بنیادی پہچان جرائم سے وابستہ ہے۔ ایسے لوگ کسی ایک پارٹی سے نہیں جڑتے اور کوئی بھی پارٹی ان سے اچھوتی ہے، مجرم اپنی بلادستی بنائے رکھ سکے اس کیلئے یہ انتظامیہ اور قانون و نظام کو لچر بنائے رکھتے ہیں تاکہ جرائم پیشہ اپنا کاروبار بے خوف کرسکیں۔ سیاست کا اتنا جرائمی کرن ہو چکا ہے کہ پارٹیاں بھی صرف سیٹ جیتنے کے لئے ان باہو بلیوں کا سہارا لیتی ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد یہ اپنی قیمت وصولتے ہیں۔ ڈی پی یادو جیسے لوگ ان تمام پارٹیوں کا ایک اور چہرہ اجاگر کرتے ہیں جو جمہوریت میں آئی گراوٹ کا ثبوت ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہندوستانی سیاست کی یہ کڑوی تصویر بدلنے کی کوئی امید نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟