منموہن سنگھ جی اپنی خاموشی توڑیں اور دیش کو سچ بتائیں

کول بلاک الاٹمنٹ گھوٹالے میں دہلی میں واقع خصوصی عدالت نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کو بطور ملزم سمن جاری کیا ہے۔ عدالت نے اس معاملے میں منموہن سنگھ کے علاوہ صنعتکار کمارمنگلم برلا اور سابق کوئلہ سکریٹری پی سی پاریکھ کو بھی سمن جاری کرانہیں8 اپریل کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ یہ معاملہ2005ء میں برلا گروپ کی کمپنی ہنڈالکو کو اڑیسہ میں تالپیرا۔2 اور3 کول بلاک کے الاٹمنٹ کا ہے۔ ملزم کے طور پر سمن جاری کرنے سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی وہ ایماندار شبیہ کم و بیش خراب ہوتی نظر آرہی ہے جو یوپی اے سرکار کے عہد کے دوران ہوئے گھوٹالے کے درمیان ایک مثال کی طرح تھی۔وزیر اعظم کی کرسی سے رخصت لیتے ہوئے منموہن سنگھ نے یہ امید ظاہر کی تھی کہ تاریخ ان کے ساتھ انصاف کرے گی۔ لیکن عدالت کے اس سمن میں تو ان کے حال میں ہی انتشار پھیلا دیا ہے۔ کوئلہ گھوٹالے میں مجرمانہ سازش رچنے اور جن سیوک کے ذریعے جنتا کا بھروسہ توڑنے جیسے سنگین الزامات میں بدعنوانی مخالف قانون کے تحت منموہن سنگھ کا مجرم بنایا جانا ایک معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس سمن سے ڈاکٹر سنگھ حالانکہ فکر مند ہیں لیکن اسے وہ زندگی کا ایک سلسلہ مان کر شاید خود کو اطمینان کا احساس کرا رہے ہیں۔ انہیں دیش کے قانونی انتظام کے ساتھ اپنی سچائی پر بھی یقین ہے۔ چلئے بحث کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ منموہن سنگھ بیشک ایماندار ہیں اور ان کی ایمانداری پر سوال نہیں کیا جاتا پر یہ سوال تو بنتا ہی ہے کہ جس شخص کو وزیر خزانہ کے طور سے دیش کی معاشیات کو لال فیتا شاہی کے جال سے آزاد کرانے والا مسیحا مانا جاتا ہے آج خود اس کے در تک کوئلہ گھوٹالے کی آنچ کیسے پہنچ گئی؟ کانگریس کا ترک حالانکہ غلط نہیں ہے کہ سمن جاری کردینے بھر سے کوئی مجرم نہیں ہوجاتا۔لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ گھوٹالے کے دوران کوئلہ منترالیہ کی ذمہ داری منموہن سنگھ کے پاس تھی اور سی بی آئی نے ان سے پوچھ تاچھ بغیر ہی اس کی کلوزر رپورٹ داخل کردی تھی۔ اس کے بھی ثبوت ہیں کہ کوششوں کے باوجود اس وقت کے وزیر اعظم کو جواب طلبی سے دور رکھا گیا تھا۔خصوصی عدالت کے نوٹس دینے پر ہی منموہن سنگھ سے پہلے اس معاملے میں پوچھ تاچھ کی گئی اور اب دوسرے کچھ لوگوں کے ساتھ انہیں مجرم بنایا گیا ہے۔عدالت نے ان تمام لوگوں کو یوں ہی نہیں بلایا ہے بلکہ اسے کئی واقعاتی ثبوت ملے ہیں جن سے انہیں بلانا اسے ضروری لگا ہے۔وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ منموہن سنگھ اس وقت کوئلہ منترالیہ بھی دیکھ رہے تھے جبکہ پاریکھ کوئلہ سکریٹری تھے۔ لیکن عدالت کو سب سے زیادہ کھٹکا اس بات پر لگا ہے کہ ہنڈالکو کو کان الاٹ کرنے کے معاملے میں پی ایم دفتر اتنا بیتاب کیوں تھا کہ وہ اس کے لئے لگاتار دباؤ بنا رہا تھا۔ پی ایم او اور کوئلہ وزارت کی ذمہ داری سنبھالنے والے منموہن سنگھ کو اس کا خلاصہ تو کرنا ہی ہوگا۔ اس کے علاوہ کیگ کے سابق چیف ونود رائے اپنی کتاب میں یہ صاف کرچکے ہیں کہ نہ صرف کوئلہ بلکہ اسپیکٹرم بٹوارے جیسے تمام معاملوں کی فائلیں پردھان منتری کی میز پر پہنچتی تھیں اور متعلقہ وزیر بھی انہیں پوری جانکاری پہنچایا کرتے تھے۔بیشک یہ ثابت کرنا ٹیڑھی کھیر ہوگا کہ برلا کی چٹھیوں کی بنیاد پر آخری وقت ہنڈالکو کو تالپیرا۔2 کوئلہ بلاک الاٹ کرنے کے پیچھے سابق وزیر اعظم کا شخصی مفاد تھا۔ ایسے میں یہ بالکل ہوسکتا ہے کہ اس گھوٹالے میں منموہن سنگھ پر لگے الزام عدالت میں نہ ٹکیں۔ اس کے باوجود اس کو روک پانے میں ناکام ہونے کے الزام تو ہیں ہی یہ سوال تو پوچھا ہی جائے گا کہ جس وزیر اعظم نے امریکہ کے ساتھ نیوکلیائی سمجھوتے کو آخری شکل دینے کے لئے سب کچھ داؤ پر لگادیا تھا وہ کول بلاک نیلامی کے پروسیس کو شفاف بنانے میں ویسی ذمہ داری کا مظاہرہ آخر کیوں نہیں کر پایا؟اپنی صاف ستھری شبیہ کے باوجود منموہن سنگھ اگر جمہوری بھارت میں سورگیہ نرسمہا راؤ کے بعد ملزم بنائے گئے دوسرے وزیر اعظم ہیں تو اس سے ان کی چپی اورسستی نے ہی بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ اب وقت کی مجبوری ہے کہ آپ اپنی خاموشی توڑیں اور دیش کو سچ بات بتائیں۔آپ کو اپنی چپی توڑنی ہی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟