بے ایمانی سے ہرادیں تو رونے کے سوائے بچتا کیا ہے؟

ناری کی طاقت کی شکل میں پوجا نوراتر کے مبارک موقعے پردکشنی کوریا کے انچیان میں چل رہے ایشین گیم نے بھی بدھوار کو اس شکتی کے دو شاندار روپ دیکھنے کو ملے۔ ایک طرف تین بچوں کی ’سپر مام‘میری کوم، ٹیٹو لوکا، انا رانی اور مہلا ہاکی ٹیم نے میڈل جیت کر ترنگے کا مان بڑھایا تو دوسری جانب متنازعہ ہار کے خلاف کانسے کا تمغہ لوٹاکر باکسر سریتا دیوی نے یہ ثابت کردیا کہ ناری انیائے کے خلاف آواز اٹھانے میں پیچھے نہیں ہٹے گی۔ دکشن کوریا کی چھوی بین الاقوامی سطح پر اچھے باکسر پیدا کرنے والے دیش کی ہے لیکن سریتا دیوی کو جیتی ہوئی بازی ہار میں بدلنے کی کسی کو امید نہیں تھی۔ ایک طرح سے سریتا دیوی کی جیت پر جانبدارانہ فیصلے سے یہ ایشین گیمس تنازعے میں پھنس گیا۔ اس سے باکسنگ رنگ میں ہورہے فیصلوں پر بڑا سوال کھڑا ہوگیا اور منگل وار کو کئی ہنگامے دیکھنے کو ملے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ایل دیویندرو سنگھ کوریائی مکے باز کے ہاتھوں ٹھیک اسی طرح کواٹر فائنل ہارے تھے۔ سریتا دیوی کی اس فائٹ نے پہلے راؤنڈ میں مقابلہ کافی قریب رہا۔ دونوں مکے بازوں نے ایک دوسرے کے خلاف جم کر مکے برسائے۔ پہلا راؤنڈ کورین باکسر کے حق میں گیا۔ دوسرے راؤنڈ میں بھارتیہ مکے باز نے شاندار واپسی کی۔ ان کا بایاں ہاتھ لگاتار کوریائی مکے باز کی ٹھڈی پر لگ رہا تھا۔ بیچ میں ان کے کرارے گھونسے سے کوریائی کھلاڑی کی ناک سے خون بھی بہنے لگا۔ بھارتیہ باکسر اتنی تیزی سے نپے تلے گھونسے جڑ رہی تھی کہ پارک کو بچاؤ پر اترنا پڑا۔سریتا کو لیکر دوسرے راؤنڈ میں ججوں کا فیصلہ بٹا ہوا تھا۔ تیسرے و چوتھے راؤنڈ میں کہانی ایک دم بدل گئی۔ سریتا کا شاندار کھیل ججوں کو متاثر نہیں کرپایا جنہوں نے تیسرے اور چوتھے راؤنڈ میں دکشنی کوریائی باکسر کو جیتا ہوا قرار دے دیا جبکہ وہ لگاتار سریتا کے گھونسوں سے جھوجھ رہی تھی۔ جب پارک کو فاتح قرار دیا گیا تو سریتا سمیت تماش بین اور کمنٹری کرنے والے بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ سریتا کو ہارا ہوا بتائے جانے کے بعد ان کے پتی اور سابق فٹبال کھلاڑی تھوئبا سنگھ افسران پر چلانے لگے کہ یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ آخر یہاں چل کیا رہا ہے۔سریتا نے مقابلہ جیتا اور میچ کوریا کے نام کردیا۔ یہ سیدھے دھوکہ دھڑی کا معاملہ ہے۔ فیصلے کے بعد سریتا دیر رات تک روتی رہی۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ ٹریننگ کیلئے سال بھر کے بچے تک کو دور رکھا۔ ایسے میں جب کوئی بے ایمانی کرکے ہارا دے تو رونے کے سوائے کیا بچتا ہے۔ 32 سال کی سریتا ایک سال پہلے ہی ماں بنی تھیں۔ فیصلے کی مخالفت میں بدھوار کو میڈل سیریمنی میں پوڈیم پر میڈل پہننے سے بھی سریتا نے انکار کردیا۔ وہ اپنے خلاف جیتنے والی دکشنی کوریائی مکے باز جنا پارک کو میڈل سونپ کر روتی ہوئی چلی گئیں۔ ایک بڑی حیرانی تب سامنے آئی جب اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لئے سریتا نے اخبار نویسوں اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے ضروری 500 ڈالر کی رقم بھی جمع کرلی لیکن انڈین اولمپک ایسوسی ایشن نے ان سے اپنا پلہ جھاڑ لیا۔یہ برتاؤ ہمارے کھلاڑیوں کے تئیں بھارتیہ کھیل کے کرتا دھرتاؤں کی طرف سے زبردست بے رخی کو ظاہر کرتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!