میڈل بیشک کم رہے پر ایشیارڈ میں چھایا جشن !

بھارت کو انچیونگ ایشین گیمس میں پہلی بار کے مقابلے بھلے ہی کم میڈل ملے ہوں لیکن پھر بھی اس نے دیش واسیوں کو جشن منانے کے کئی موقعے فراہم کردئے۔ 17 ویں ایشین گیمس کئی معاملوں میں تاریخی رہے۔ مرد ہاکی ٹیم نے جہاں 48 سال بعد پاکستان کو ہرا کر 16 سال کے لمبے عرصے کو ختم کردیا۔ مرد ہاکی میں گولڈمیڈل جیتا وہیں ایم سی میریکام نے جو تین بچوں کی ماں ہے، شاندار کھیل کرکے سونا جیتنے والی پہلی خاتون مکے باز بننے کے بعد اپنی شخصیت کو اور دوبالا کردیا ہے۔ یوگیشور دت بھی پیچھے نہیں رہے اور انہوں نے 28سال بعد ریلنگ کا گولڈ میڈل جیت کر تاریخ بنائی۔ 4x400 رلے دوڑ میں ہندوستانی خواتین نے گیمس ریکارڈ کے ساتھ مسلسل چوتھی بار طلائی تمغہ جیتنے میں کامیابی پائی۔ گیمس کے آخری دن کبڈی میں مرد اور خواتین میں دو دو طلائی تمغے جیت کر بھارت 11 طلائی، 9 چاندی اور 37 تانبے یعنی کل ملا کر57 میڈل حاصل کرکے 8 ویں مقام پر رہا۔ اگر صرف میڈل کی تعداد گنی جائے تو بھارت ، چین، کوریا، جاپان، قزاخستان کے بعد پانچویں مقام پر رہا۔ چین نے ایک بار پھر شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا اور وہ اول نمبر پر رہا مگر بھارت کی پوزیشن گوانچیو میں ہوئے پچھلے ایشیائی کھیلوں سے بہتر نہیں مانی جاسکتی۔ اسے 14 طلائی سمیت کل 65 میڈل ملے تھے۔ بھارت کو اس مرتبہ 11 طلائی سمیت 57 میڈل پر اکتفا کرنا پڑا۔ میڈل ٹیلی میں اٹھنے کی بات تو دور رہی بھارت کو اپنا پچھلا یعنی چھٹا مقام برقرار رکھنے میں مشکل ہوگئی۔ بھارت دوسری سب سے بڑی آبادی والا دیش ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے وسیع بازار کے بوتے ایک بڑی اقتصادی طاقت بن چکا ہے یا جلدی بن جائے گا لیکن اس خودکفالت کی ساکھ کے برعکس کھیلوں میں اگر وہ پھسڈی نہیں تو قطار میں پیچھے ضرور کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ انچیون میں ہوئے اولمپک میں نہیں تھے ایشیارڈ تک محدود رہے لیکن بھارت اس میں پہلے 3-4 میں جگہ نہیں بنا سکا۔ چین، جنوبی کوریا اور جاپان سے بھارت کے میڈل کا فرق کافی ہے یہ گراوٹ کیا بتاتی ہے؟ یہی کھیل آگے بڑھانے کے ارادے سے اور منصوبے محض زبانی جمع خرچ کے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے جو چمکتی کامیابی نظر آتی ہے وہ ہمارے کھلاڑیوں کی ذاتی چاہت اور لگن کا نتیجہ ہے۔ دیش کا کھیل ڈھانچہ اور اعلی حکام کو اس کا سہرہ نہیں دیا جاسکتا۔ بہرحال یہ باتیں پرانی ہوچکی ہیں۔ ہر بڑے کھیل کے انعقاد کے بعد انہیں دوہرایا جاتا ہے لیکن صورت نہیں بدلتی۔ سابقہ یوپی اے حکمت نے کھیل انتظامیہ میں شفافیت اور جوابدہی کے لئے کھیل بل تیار کیا تھا۔ اس بارے میں این ڈی اے سرکار کا کیا موقف ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔ لیکن انچیون کے نتیجے کا سبق یہ ہے کہ اسے اس سوال پر غور کرنا چاہئے اور وسیع اور جانبدارانہ اور سیاسی بالادستی اور نااہلی کے سبب بھی ہم پچھڑے ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہمارے پاس بہت ہنرمند کھلاڑی نہیں ہیں بلکہ ان کو ملنے والی سہولیات کی کمی ہے۔ کھیلوں کی فیڈریشنوں میں جس طرح سے کھلاڑیوں سے برتاؤ کیا جاتا ہے، میریکام پر مبنی فلم سے یہ ہی پتہ چلتا ہے۔دراصل دیش میں سیاسی لیڈر شپ پربہت کچھ منحصر کرتا ہے اور اس کا کھیل سمیت ہر سیکٹر میں اثر پڑتا ہے۔ پچھلی دہائی اس کی گواہ ہے اور کھیل میں پچھڑنا اسی بات کی علامت ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟