مہاراشٹر اسمبلی چناؤ میں مودی کی ساکھ داؤ پر لگی ہے!

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے مہاراشٹر اسمبلی چناؤ میں اپنے آپ کو داؤ پر لگا کر کیا ٹھیک کیا ہے؟ اگر بھاجپا ان چناؤ میں اچھی پرفارمینس دکھاتی ہے تومودی کی کوشش انہیں اور مضبوط بنا کر سامنے لائے گی۔ اگر چناؤ نتائج اتنے اچھے نہیں آتے تو کیا اس سے مودی کا گراف نیچے نہیں گرے گا؟ مہاراشٹر میں شیو سینا سے اتحاد ٹوٹنے کے بعد ریاست میں بھاجپا کی جیت کو لیکر پی ایم مودی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔ ہرحال میں یہ چناؤ جیتنے کے لئے پارٹی کے چانکیہ مانے جانے والے امت شاہ نے وکاس منڈل اور شمالی ہندوستانیوں اور گجراتیوں پر مودی کی زیادہ توجہ مرکوز کرائی ہے۔ امت شاہ کا اندازہ ہے کہ اگر ان کا یہ فارمولہ کامیاب ہوا تو اسے 150 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ ریاست کے نیتاؤں کو امید ہے کہ مودی کے بوتے پر انہیں ریاستی اسمبلی میں اکثریت مل جائے گی کیونکہ بھاجپا برانڈ پولیٹکس کو اہم اور کامیاب مان رہی ہے لہٰذا ریاست میں مودی کے سامنے دوسرے لیڈروں کا قد بونا پڑتا نظر آرہا ہے۔ کانگریس نے دیش میں جس شخصی سیاست کو اہمیت دی بھاجپا نے عالمی کرن کے بعد اس کے چہرے میں بہتری لا کر برانڈ پالیٹکس میں بدل دیا ہے۔ اس وقت بھاجپا میں ایک ہی برانڈ ہے وہ ہے نریندر مودی۔ سب کچھ انہیں کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔ بھاجپا کی اسی حکمت عملی کے دم پر مہاراشٹر اسمبلی چناؤ لڑرہی ہے۔ مہاراشٹر میں بھاجپا نے 50 سے اوپر ایسے لیڈروں کو ٹکٹ دیا ہے جو دوسری پارٹیوں سے جڑے ہوئے تھے۔ ان میں ڈیڑھ درجن راشٹروادی کانگریس پارٹی کے ہیں۔ڈ یڑھ درجن کانگریس کے اور9 شیو سینا کے لیڈر شامل ہیں۔جب ووٹ مودی کے نام پر چاہئے تو اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کون چناؤ میں کھڑا ہے ؟ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعدسے اتراکھنڈ ،بہار،اترپردیش،گجرات میں ہوئے ضمنی چناؤ میں بھاجپا کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تب سے یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ عوام کے سر سے مودی کا جادو اترنا شروع ہوگیا ہے۔ لوک سبھا چناؤ اور ریاست کے چناؤ میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ریاستی اسمبلی چناؤ می اشو بھی مختلف ہوتے ہیں اور امیدوار کی ساکھ بھی کام کرتی ہے۔ شیو سینا سے الگ ہونے کے بعد تازہ چناوی اعدادو شمار میں کئی پارٹیاں میدان میں ہیں۔ بھاجپا ۔ شیو سینا۔ کانگریس اور این سی پی قابل ذکر ہیں۔ اس ملٹی پارٹی اور چناؤ میں ہار جیت کا فرق بہت کم رہے گا۔این ایم ایس ، سپا وغیرہ کئی اور پارٹیوں کے امیدوار بھی کھڑے ہوئے ہیں۔ بھاجپا کا اندازہ ہے کہ اگر ان کی حکمت عملی پوری طرح سے کامیاب رہی تو 150 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ 288 ممبری اسمبلی میں مکمل اکثریت کے لئے144 سیٹیں چاہئیں۔ پارٹی ہر حال میں یہ نمبرلانے کا دعوی کررہی ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو شیو سینا کے ساتھ مل کر سرکار بنا سکتی ہے۔ شاید اسی لئے شیو سینا کے وزیر کو مرکز سے نہیں ہٹایا گیا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ نریندر مودی نے اپنی ساکھ داؤ پر لگادی ہے۔ دیکھیں ان کی مقبولیت کیا مہاراشٹر میں بھاجپا کو اقتدار سلا سکتی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟