کیا نریندر مودی کا پسماندگی کا فائدہ بھاجپا یوپی میں اٹھا پائے گی؟

بھاجپا کے پی ایم ان ویٹنگ نریندر مودی کا مشن لوک سبھا2014 کا راستہ اترپردیش سے ہوکر گزرتا ہے۔ 85 سیٹوں والی یہ ریاست بھارتیہ جنتا پارٹی کے گیم پلان میں بہت اہم حصہ ہے۔ تبھی تو نریندر مودی نے اپنے سب سے بھروسے مند حکمت عملی ساز امت شاہ کو لکھنؤ میں بٹھایا ہوا ہے۔ بھاجپا اترپردیش میں پارٹی کے پی ایم عہدے کے امیدوار نریندر مودی کے ذریعے ریاست کی80 سیٹوں کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگی ہے۔ نریندر مودی کا چہرہ اور لیڈر شپ پارٹی کو اپنے سماجی تجزیات کے حساب سے اترپردیش میں بھارہی ہے۔پارٹی اس کوشش میں بھی لگی ہوئی ہے کہ نریندر مودی کی پسماندہ ذات ہونے کا فائدہ مل سکے۔ بھاجپا اترپردیش میں مودی کارڈ کھیل کر سیاسی سطح پر ایک تیر سے کئی نشانے لگانے میں لگی ہوئی ہے۔ بھاجپا کے حکمت عملی سازوں کولگتاہے کہ مودی کی وکاس پرش کے ساتھ ساتھ پسماندہ لیڈر کی ساکھ بھی بھاجپا کے لئے نہ صرف فائدے مند ثابت ہوگی بلکہ پارٹی ذات پات کے تجزیوں کو بھی طاقت دے گی۔ 80 سیٹوں والی اترپردیش ریاست میں بھاجپا 40 سے50 سیٹوں کے درمیان جیتنے کا نشانہ لیکر چل رہی ہے۔ نریندر مودی کی ریلیاں یہاں زیادہ تر کامیاب ہورہی ہیں۔ کاشی میں راج تالاب میں واقع کھجراؤ میں منعقد وجے شکھانند ریلی میں کافی بھیڑ سے مودی گد گد ہوئے اور کہا کہ چناؤ سے پہلے اس طرح کا ماحول کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ یوپی صرف سیاست کا میدان ہی نہیں بلکہ ہندوستان کا بھاگیہ ودھاتا بن سکتا ہے۔ یہاں رام راجیہ بنانے کا کام آپ کے پوروجوں نے کیا تھا۔ رام راجیہ کے لئے جس طرح سے عوامی حمایت کی ضرورت چاہئے وہ آپ کے پاس ہے۔ مودی نے بنارس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے یہاں کا موازنہ سورت سے کیا۔ کہا کہ بنارس کی طرح سورت میں بھی برسوں سے ساڑیاں خاص کاروبار بن چکی ہیں۔ یہاں کے کاریگر اور تاجر تباہ ہورہے ہیں جبکہ سورت میں ساڑی کاروبار اور شہر کی شکل بدل دی ہے۔ نیک ارادہ ہو تو بنارس کی ساڑی صنعت کو بھی اسی طرح فروغ دیا جاسکتا ہے۔ کاشی میں منعقدہ ریلی کو خطاب کرنے سے پہلے بابا ویشواناتھ کا درشن کرنے پہنچے مودی نے ودھی سے پوجا ارچنا کی ۔ پوجا کے دوران جب براہمنوں نے مودی کو سنکلپ دلانا شروع کیا تھا ہاتھ میں روپے لینے کو کہا۔ ہاتھ میں شہد لگا ہونے اور سوئٹر پہننے کی وجہ سے مودی نے جیب میں ہاتھ نہیں ڈالا۔ بغل میں راجناتھ سنگھ نے 100 روپے کا نوٹ نکال کر مودی کو دیا۔ بھاجپا کے ذریعے نریندر مودی کو بطور قد آور پسماندہ ذات کے لیڈر کی حیثیت سے پروجیکٹ کرنے سے سماجوادی پارٹی بھی اندر خانے فکر مند ہوگئی ہے۔ بھاجپا کو ایک دور میں پسماندہ طبقات کی حمایت مل چکی ہے۔ کلیان سنگھ اور ونے کٹیار جو کبھی ہندوتو کی علامت تھے وہ پسماندہ طبقے کے لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ بعد میں وہ نہ ہندوتو کے کام کے رہے اورنہ پسماندہ طبقات میں اپنا دبدبہ قائم رکھ سکے۔ پچھلے اسمبلی چناؤ میں بھاجپا نے بابو سنگھ کشواہا کی حکمت عملی کو لیکر تو اما بھارتی تک کو چناؤ لڑادیا لیکن معاملہ کچھ نہیں بنا۔ اب مودی کی نئی پہچان پسماندہ لیڈر کے طور پر بتائی جارہی ہے اور وہ پچھڑے طبقے کے لیڈرہیں یہ پیغام گاؤں گاؤں تک پہنچایا جارہا ہے۔ راجناتھ سنگھ۔ نریندر مودی کی جوڑی نے اترپردیش میں اپنے کیڈر کو لوک سبھا چناؤ کے لئے میدان میں اتار دیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے 90 کی دہائی میں اترپردیش کے سابق وزیر اعلی کلیان سنگھ کے سبب بھاجپا کو اونچی ذاتوں کے ساتھ پسماندہ طبقات کا بھی بھرپور ووٹ ملا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!