مظفر نگر میں دونوں فرقوں میں بے اعتمادی کی خلیج کو کیسے بھرا جائے؟

کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے جب ایتوار کو اترپردیش کے فساد متاثرہ مظفر نگر اور شاملی اضلاع میں لگے راحت کیمپوں اور دیہات کا اچانک دورہ کیا تو ان کا سامنا اس گنا پٹی میں فساد کے بعد فرقوں کے بیچ بنی گہری کھائی کی گہری حقیقت سے ہوا۔ ایک طرف ایک ساتھ رہنے کی منشا ہے تو دوسری طرف فرقوں کے بیچ بے اعتمادی کی کھائی۔ اسی کے پیش نظر راہل نے ثالثی کی ضرورت پر زوردیا۔ انہوں نے کیمپوں میں بیحد خراب حالات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی زوردیا۔کیمپوں میں مقیم افراد نے اس بات کی شکایت کی کہ گرم کپڑوں کے دستیاب نہ ہونے سے23 بچوں کی موت ہوگئی ہے۔ زیادہ تر راحت کیمپوں میں ا سی طرح کی شکایتیں تھیں۔ ایک متاثرہ لڑکے نے تلخی بھرے انداز میںیہ بات بتائی تو راہل نے پوچھا کہ وہاں کتنے دبنگ ہیں؟ گاندھی نے متاثرین سے اپیل کی وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ جب راہل نے بار بار ان سے پوچھا کیا کیا جانا چاہئے جس سے وہ اپنے گھروں کو لوٹ سکیں ، تو الکپور کے مفتی اسلم نے کہا کہ یہ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک جن لوگوں نے فساد کو انجام دیا ہے انہیں سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیجا جاتا۔ دنگوں کو انجام دینے والے اب بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ شاملی میں ایک خاتون نے کہا میں نے بیٹا کھودیا ہے اور انہوں نے میرا گھر جلا دیا ہے میں وہاں جاکر کیا کروں گی؟ ایک کیمپ میں فساد متاثرین نے راہل کے قافلے کو روکنے کی کوشش کی اور اپنے مسائل کا حل کرنے اور وعدے کی مانگ کی۔ متاثرین کے نمائندوں نے ریاستی سرکار کے حکم کی ایک کاپی اور وزیر اعلی اکھلیش یادو کو سونپا گیا خط سونپا جس میں انہوں نے کہا کہ فرقے فساد متاثرین میں زیادہ تر کھیتی مزدور ،اینٹ بھٹا مزدور افراد ہیں۔ انہوں نے اب اپنا ذریعہ معاش کھو دیا ہے۔ وزیر اعلی اکھلیش یادو کو کیرانا کے آل انڈیا اتحادالمسلمین کی سونپی گئی مانگوں کی فہرست میں پہلی مانگ تھی کہ شاملی، مظفر نگر اور باغ پت میں جاٹھ فرقے کے ملازمین اور پولیس افسران اور دیگر افسران کا دیگر ضلعوں میں تبادلہ کیا جانا چاہئے۔ کیمپ چلانے والے لوگ بے لوث ہیں انہیں مختلف علاقوں کے فرقوں کے لئے آنے والی اقتصادی مدد سے فائدہ ہوتا ہے۔ شاملی ضلع کانگریس پردھان ایوب جنگ نے الزام لگایا کہ زیادہ تر راحت کیمپوں کو سماج وادی پارٹی کے ممبر چلا رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ کیمپ میں رہنے والے لوگ اپنے گھروں کو لوٹیں۔ فساد میں زندہ بچے لوگوں نے کچھ عرصے پہلے مظفر نگر کی سڑکوں مظاہرہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ریاستی سرکار ان پر اس بات کا اعلان کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اپنے گاؤں نہیں لوٹیں گے اور پانچ لاکھ روپے کے معاوضے کے بدلے اپنی پراپرٹیوں کے دعوے کو چھوڑدیں۔جاٹھ اکثریتی کنکر کھیڑا میں دیہاتیوں نے راہل گاندھی سے شکایت کی کہ مسلم فساد متاثرین کو ریاستی سرکار معاوضہ دے رہی ہے وہیں ان کے فرقے کے لوگوں کو کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ انہوں نے الزام لگایا ریاستی انتظامیہ دباؤ میں کارروائی کررہی ہے۔ ایک خاص فرقے کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی ہے ۔ اس فرقے کے لوگوں نے ہی پہلے تشدد کا سہارا لیا۔ ایک دیہاتی جنگ لال نے بتایا کے اس سے پہلے وہاں کبھی جھگڑے نہیں ہوئے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس مسئلے کا آخر حل کیسے نکلے گا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!