کانگریس۔ بھاجپا میں مچا ٹکٹوں کیلئے گھمسان!

دہلی اسمبلی چناؤ میں اب بہت کم وقت بچا ہے۔ کانگریس ۔ بھاجپا دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں ٹکٹوں کے بٹوارے کے لئے گھمسان مچا ہوا ہے کیونکہ مقابلہ کانٹے کا ہے اس لئے ٹکٹوں کے بٹوارے پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔ پیر کے روز کانگریس صدر سونیا گاندھی کے دربار میں کانگریس چناؤ کمیٹی کی میٹنگ ہوئی جس سے اشارہ ملتا ہے کہ ایک بار پھر وزیر اعلی شیلا دیکشت کی ہی چلی ہے۔ ذرائع کی مانیں تو سونیا نے شیلا پر پورا بھروسہ جتایا ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق سبھی موجودہ ممبر اسمبلی کو ٹکٹ دیا جاسکتا ہے۔ غور طلب ہے کہ ٹکٹ بٹوارے پر عام رائے نہ بن پانے پر معاملہ سونیا کے دربار میں پہنچایا گیا۔ اس سے پہلے مرکزی وزیر نارائن سامی کی سربراہی والی اسکریننگ کمیٹی کی پانچ میٹنگیں ہوچکی تھیں۔ بتاتے ہیں ٹکٹ بٹوارے کولیکر شیلا جی اور جے پرکاش اگروال کے درمیان پرانی نوک جھونک آڑے آرہی تھی۔ دونوں کی کوشش ہے کہ ان کے زیادہ سے زیادہ حمایتیوں کو ٹکٹ ملے۔ شیلا دیکشت جہاں اپنے سبھی موجودہ ممبران اسمبلی کو ٹکٹ دلانے کے حق میں تھیں وہیں دہلی پردیش پردھان جے پرکاش اگروال تقریباً آدھا درجن ممبران کے ٹکٹ کٹوانا چاہتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شیلا جی نے سونیا جی کے سامنے کہا اس بار سہ رخی مقابلے کے آثار ہیں۔ ایسے میں ہمیں چوکس رہنا ہوگا۔ وزیر اعلی نے کہا کسی بھی ممبر اسمبلی کا ٹکٹ کاٹنا خطرے سے بھرا ہوگا۔ اس میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کے دہلی سرکار کے دو وزرا سمیت درجن بھر ممبران اسمبلی کا ٹکٹ فی الحال ٹال دیا جائے۔ اب اگر ہم بھاجپا کی بات کریں تو بھاجپا میں ٹکٹوں کے لئے کانگریس سے بھی زیادہ کھینچ تان چل رہی ہے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن سی ایم کے امیدوار بن چکے ہیں۔ ٹکٹ تقسیم کے تجزیئے بدل گئے ہیں۔ ہرش وردھن کے اعلان سے پہلے ٹکٹ پانے کے خواہشمند یا تو پروفیسر وجے کمار ملہوترہ کے یا پھر وجے گوئل کے یہاں زیادہ چکر کاٹ رہے تھے۔ ٹکٹ کے متلاشیوں کی طرف سے نتن گڈ کری، ارون جیٹلی، سشما سوراج و پارٹی پردھان راجناتھ سنگھ کے گھر پر منت مایا چل رہی تھی۔ شری لال کرشن اڈوانی کے یہاں بھی حاضری لگانے والے کم نہیں تھے۔ گڈکری نے سبھی سابق 14-14 یعنی 28 ضلعوں کے پردھانوں سے ٹکٹ مانگ رہے دعویداروں کی ایک مکمل فہرست مانگی ہے۔دیوالی کے بعد یہ پہلی فہرست جاری ہونے کا امکان ہے۔ اس درمیان عورتیں بھی اس بار زیادہ کوٹہ مانگ رہی ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان کانٹے کی ٹکر چل رہی ہے۔ عام طور پر ڈاکٹر ہرش وردھن کے نام کا اعلان ہونے سے پہلے کانگریس کا پلڑا بھاری مانا جارہا تھا لیکن ہرش وردھن کے آنے سے تھوڑے سیاسی تجزیئے بدلے ہیں۔ اب ٹکر کانٹے کی ہوگئی ہے۔ اب منحصر کرے گا امیدواروں پر کانگریس کی کچھ سیٹوں پر پارٹی بہت مضبوط ہے۔ یہ ہی حال بھاجپا کی سیٹوں کا ہے۔رہی عام آدمی پارٹی کی تو مجھے نہیں لگتا کے وہ خود زیادہ سیٹیں جیت سکتی ہے ہاں ووٹ ضرور کٹوا کر دونوں پارٹیوں کو نقصان ضرور پہنچا سکتی ہے۔ چناؤ مہم زوروں سے شروع ہوچکی ہے۔ اس بار سوشل میڈیا کا جم کر استعمال ہورہا ہے۔ مہنگائی، کرپشن، قانون و نظام ، مہنگی بجلی، بے روزگاری اشو چھایا ہوا ہے۔ اتنا طے ہے دنگل تکونا ہے۔ آنے والے دن کافی اہمیت کے حامل ہوں گے کیونکہ امیدواروں کے نام اعلان ہوجائیں گے اصل لڑائی تب شروع ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟