غلط علاج کی وجہ سے ہوئی موت پر سب سے بڑا طبی معاوضہ!

سپریم کورٹ نے غلط علاج کی وجہ سے ایک خاتون کی موت پر کولکاتہ کے ایک معاملے میں ریکارڈ توڑنے والا میڈیکل جرمانہ عائد کرتے ہوئے کروڑوں روپے کا معاوضہ دینے کی ہدایت دی ہے۔ جسٹس کے ۔پرساد اور وی گوپال گوڑا کی ڈویژن بنچ نے طبی علاج میں لاپرواہی کے چلتے ڈاکٹر کنال ساہا کی اہلیہ انورادھا کی اے ایس آرآئی ہسپتال اور تین ڈاکٹروں کو سال1998ء میں طبی علاج میں لاپروائی کے معاملے میں 6.08 کروڑ روپے بطور معاوضہ دینے کافرمان سنایاہے۔یہ جرمانہ اب تک بھارت کی تاریخ میں سب سے بڑا معاوضہ ہے۔ معاملہ کچھ ایسے تھا مارچ1998ء میں پیشے سے سائیکلوجسٹ انورادھاساہا اپنے شوہر ڈاکٹرساہا کے ساتھ بھارت چھٹیاں منانے آئی تھیں۔ ڈاکٹر ساہا امریکہ کے اوہویو میں ایڈس ریسرچ رساں ہیں۔ 25 اپریل 1998ء کو کھال پر دانے ہونے کی شکایت پر ڈاکٹر مکھرجی سے رابطہ قائم کیا۔7 مئی 1998ء میں ڈاکٹرمکھرجی نے ڈیپومینڈرال انجکشن لگوانے کا مشورہ دے دیا۔ اس انجکشن کے لگتے ہی انورادھا کی طبیعت خراب ہونے لگی اور 11 مئی 1998ء کو انہیں اے ایم آر آئی ہسپتال میں بھرتی کرایاگیا۔ طبیعت بگڑنے پر انہیں ممبئی لے جایا گیا۔28 مئی کوممبئی کے برج کینیڈی ہسپتال میں انورادھا کی موت ہوگئی۔ موت کی وجہ غلط علاج تھا۔ ڈاکٹر کنال ساہا کو اب ہرجانے کے طور پرکل 11.41 کروڑ روپے ملیں گے۔ سپریم کورٹ نے کولکاتہ کے اس ہسپتال اور تین ڈاکٹروں کو لاپروائی کے لئے ذمہ دار مانا ہے۔ سبھی کو 8 ہفتے میں پیسہ دینے کوکہا گیا ہے۔ اس سے پہلے نیشنل کنزیومر ڈسپیوٹ ریڈرسل کمیشن نے 2011ء میں ساہا کے حق میں فیصلہ سنایاتھا اور ہرجانے کی رقم1.7 کروڑ روپے طے کی تھی۔ اب کورٹ نے اس رقم کو بڑھاتے ہوئے ہسپتال کو6 فیصدی شرح سود کے ساتھ چکانے کو کہا ہے۔ کس کو کتنی رقم چکانی ہے ۔ڈاکٹر بلرام پرساد کو 10 لاکھ روپے،ڈاکٹر سکو کمار مکھرجی کو10 لاکھ روپے، ڈاکٹر بیدناتھ ہلدر کو 5 لاکھ روپے باقی رقم اے ایم آئی آر ہسپتال کو چکانی پڑے گی۔ سپریم کورٹ نے نجی ہسپتالوں اور نرسنگ ہوم میں طبی لاپرواہی کے روزانہ بڑھتے واقعات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ریاست اور مرکزی سرکاروں سے کہا ہے کہ ان کے لئے باقاعدہ قانون بنائے جائیں۔ عدالت نے کہا ڈاکٹروں کے برتاؤ پر قابو کرنے کے لئے ایم سی آئی ہے لیکن ہسپتالوں پر کنٹرول کے لئے کوئی قانون نہیں ہے۔ فیصلہ قلمبند کرتے ہوئے جسٹس گوپال گوڑا نے کہا کہ ہم یہ پہلے فیصلہ دے چکے ہیں کہ صحت کا حق آئین کی دفعہ21 کے تحت شہریوں کو بنیادی حق ہے ۔ایسے میں ہر سرکاری و پرائیویٹ ہسپتال،پالی کلینک اور پرائیویٹ نرسنگ ہوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو اپنی پوری صلاحیت اور استعداد کے ساتھ عمدہ علاج کریں۔ اگر ہسپتال اور نرسنگ ہوم تک دیگر متعلقہ طبی ادارے بھاری بھرکم پیسہ لینے کے بعد بھی اچھی صحت اور بہتر زندگی جینے کی امید میں آئے مریضوں کے ساتھ یہ لاپروائی برتتے ہیں تو ان سے سختی سے نمٹا جائے۔عزت مآب عدالت نے کہا مریض چاہے کسی بھی اقتصادی اور سماجی حیثیت کا ہو اسے عزت کے ساتھ علاج کرانے کا حق حاصل ہے۔ یہ اس کا بنیادی حق ہی نہیں بلکہ اس کا انسانی حق بھی ہے۔ ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہیں عزت مآب جج صاحبان کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نے اس مسئلے کی طرف نہ صرف توجہ دی ہے بلکہ اسکے دوررس نتائج بھی ملیں گے۔ ڈاکٹروں کی جوابدہی طے ہونی چاہئے۔ لاکھوں مریض ہربرس غلط علاج کے سبب پورے دیش میں مرتے ہیں اور ان کے بارے میں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اس فیصلے سے اتنا تو ہوگا کے ڈاکٹراب غلط انجکشن لگانے سے، ہسپتال غلط دوا دینے سے پہلے دس بار سوچیں گے توصحیح۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟