کہیں گاندھی میدان کی یہ ریلی مودی کو دہلی کے تخت تک نہ پہنچا دے؟
ہم پٹنہ کی عوام کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں کہ دیش کو دہلا دینے والی دہشت گردوں کی اب تک کی سازشوں میں سے ایک کو نہ صرف انہوں نے ناکام کیا بلکہ ہمت سے اس کا مقابلہ بھی کیا۔ بہار کی عوام نے یہ ثابت کردکھایا کہ مٹھی بھر دہشت گرد کبھی بھی اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ پٹنہ کے گاندھی میدان میں لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں چاروں طرف بم پھٹتے رہے، لوگ زخمی ہوکر گرتے رہے، لیکن نہ تو کوی بھگدڑ مچی اور نہ ہی کوئی اپنی جگہ سے ہلا۔ بموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں لوگ گاندھی میدان پہنچتے رہے۔ اسٹیج پر موجود بھاجپا لیڈر شپ کی بھی تعریف کرنی ہوگی کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بم پھٹ رہے ہیں انہوں نے لاکھوں لوگوں کی بھیڑ کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ داد تو نریندر مودی کو بھی دینی پڑے گی جو اتنے پریشان کن حالات کے باوجود نڈر ہوکر ایک گھنٹے تک بولتے رہے۔ اس واردات سے نتیش کمار بری طرح سے بے نقاب ہوگئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں انٹیلی جنس بیورو کی طرف سے کوئی الرٹ نہیں ملا۔ اگر ہم ان کی بات مان بھی لیں تو بھی وہ اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے۔ آخر انہوں نے اور ان کی انتظامیہ نے اتنی بڑی ریلی سے بچنے کیلئے کیا تیاری کی تھی؟ پہلا دھماکہ صبح میں ہوا جب آپ تیار بھی نہیں ہوئے ہوں گے۔ بم لیکر میدان کے اندر آتنک وادی اتنی آسانی سے کیسے گھس آئے؟ کیسے انہوں نے میدان کے اندر مختلف مقامات پر بم لگائے؟ بم بھلے ہی کم طاقت کے رہے ہوں لیکن ان میں ٹائمر لگا ہوا تھا۔ ایک کے بعد ایک دھماکوں سے دہشت کی لہر پھیل جاتی اور بھگدڑ بھی ہوتی۔ لاکھوں لوگوں کی قسمت اچھی تھی کے ایسا نہیں ہوا، ہوتا تو اس کا نتیجہ کتنا تباہ کن ہوتا، یہ سوچ کر بھی دل گھبراجاتا ہے۔ نتیش کو نریندر مودی کی ریلی پر اس لئے بھی خاص توجہ دینی چاہئے تھی کیونکہ اس میں کسی بھی طرح کی گڑ بڑی ہونے پر سیدھا الزام ان پر لگتا کے انہوں نے جان بوجھ کر حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے۔ کہیں ایسا تو نہیں اقلیتوں کے ووٹ کے چکر میں نتیش نے اس ریلی پر اتنی توجہ نہیں دی جتنا دینا ضروری تھا؟ حساسیت کی حد یہ تھی کہ ایمرجنسی حالات میں لوگوں کو باہر نکالنے کا کوئی انتظام بھی انتظامیہ کے پاس نہیں تھا۔ ارون جیٹلی نے اپنے بیان میں یٰسین بھٹکل کی گرفتاری کا ذکر کیا۔اس کو جب رسول میں گرفتار کیا گیا تھا تو نتیش کمار نے نہ تو گرفتاری دکھانے کی حامی بھری اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی کیس درج کرنے کو تیار ہوا۔ یہ صرف اس لئے کہ اقلیتی ووٹ ناراض نہ ہوجائے۔دراصل آئی ایس آئی کی ٹیم نے جاکر بھٹکل کو حراست میں لیا۔ اس درمیان اس کے کچھ اور ساتھی بھی بھاگ نکلے۔ نتیش کمار کی اس خوش آمدی کی پالیسی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ بہار اب آتنکیوں کا گڑھ بنتا جارہا ہے۔7 جولائی کو بودھ گیا میں اسی طرح کے دھماکے کئے گئے تھے ابھی تک اسکا کوئی سراغ تلاش کرنے میں بہار پولیس ناکام ہے۔ خفیہ ذرائع کے مطابق بہار اور جھارکھنڈ میں لمبے عرصے سے سرگرم انڈین مجاہدین جانچ ایجنسیوں کے راڈار پر ہے لیکن بہار پولیس انتظامیہ اپنے نکمے پن کے چلتے چار مہینے کے اندر مسلسل دوسری بڑی واردات ریلی میں دھماکوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ یہ ہی نہیں بہار پولیس کے کام کرنے کے طور طریقے پر بھی آئی ایس آئی سوال اٹھائے ہیں۔ خاص طور پر میدان میں ملے غیر مستعمل بموں کو ناکارہ کرنے کے طریقے پراس نے اعتراض بھی اٹھایا ہے۔ کیونکہ ان بموں سے کئی سراغ ملتے لیکن پولیس نے انہیں بوری میں بھر کر ناکارہ کرنا بہتر سمجھا۔ سچائی تو یہ ہے کہ18 فیصدی اقلیتی ووٹ بینک کے چکر میں نتیش بوکھلا گئے ہیں اور ان کی سرکار و انتظامیہ پرپکڑ ڈھیلی پڑتی جارہی ہے۔ اسی ووٹ بینک کے چکر میں نتیش نے بھاجپا سے گٹھ جوڑ ختم کیا اور اکیلے اپنے دم خم پر سرکار چلانے کی کوشش کی۔ جب سے انہوں نے نریندر مودی کو لیکر یہ اتحاد توڑا تبھی سے ان کی مقبولیت کا گراف گھٹ رہا ہے۔ رہی بات نریندر مودی کی، وہ تو میں نتیش جی کو وہ پرانا قصہ دوہرانا چاہتا ہوں کے لالو جی نے اسی ووٹ بینک کے چکر میں اڈوانی کی رتھ یاترا روکی تھی اور انہیں گرفتار کرلیاتھا اوردہلی کے بھاجپاکوتخت تک پہنچانے میں یہ ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ کہیں ایتوار کی گاندھی میدان کی یہ مودی ریلی انہیں گدی تک نہ پہنچا دے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو بلا شبہ اس میں شری نتیش کمار کاقابل قدر اشتراک ہوگا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں