سونے کا سنہرہ خواب دھندلا ہونے لگا!

آخر کار یوپی کے ڈونڈیا کھیڑا گاؤں میں پچھلے15 دنوں سے ایک ہزار ٹنسونے کی تلاش کے لئے چل رہی کھدائی کا کام ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔کروڑوں لوگوں کی امیدیں خاک میں ملتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ہندوستانی آثار قدیمہ کے محکمے نے وہاں پر جاری کھدائی بند کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ ظاہر ہے اس سے اناؤ ضلع کے تمام شہریوں کا سونے کا خواب ٹوٹ گیا ،جو سنت شوبھن سرکار کے سپنے پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کیا گیا تھا۔ اب اس پر سرکار کی سمجھداری پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ جس دن سے یہ کھدائی شروع ہوئی اسی دن سے میڈیا اور دیش کے سمجھدار طبقے نے اس کھدائی پر سوال اٹھایا تھا۔ سچ کہا جائے تو اس سارے معاملے سے ہمارا سسٹم بے نقاب ہوگیا ہے۔ ایک سنت شوبھن سرکار نے خزانے کا خواب دیکھا اورمرکزی وزیر مملکت زراعت چرن داس میہنت اور پی ایم او سے کھدائی کئے جانے کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی اور اے ایس آئی کھدائی میں لگ گیا۔ عام طور پر اتنی جلد بازی عام آدمی کے اشو پر منتری یا دوسرے عوامی نمائندے نہیں دکھاتے۔ جب کھدائی ہونے لگی تو مرکزی وزیر ثقافت چندریشوری کٹوچ نے بیان دیا کے کھدائی سونے کے خزانے کے لئے نہیں ہورہی ہے۔ وہاں تاریخی چیزیں تلاش کی جارہی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اب اے ایس آئی نے سونا نہ ملنے کی بات کیوں نہیں کہی۔ ضرور سرکاری سطح پر پریشان کن حالت ہے۔ لگتا ہے ایک طبقے کو واقعی شوبھن سرکار کے دعوے پر بھروسہ تھا یا پھر اس کے ذریعے اس چناوی موسم میں سیاسی فائدہ اٹھانے کا ارادہ تھا۔ اے ایس آئی کا کام خزانہ تلاشنا نہیں ہے۔ تاریخی اہمیت کی حامل چیزیں اور اطلاعات اکٹھا کرنا ہے تاکہ ہم اپنی وراثت کو بنائے رکھ سکیں۔ ڈونڈیا کھیڑا میں ای ایس آئی کے ذریعے کی جارہی ایک گڈھے کی کھدائی پوری ہوچکی ہے۔ کھدائی میں خزانہ ملنے کے امکانات مدھم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ حالانکہ اب اے ایس آئی دوسرے گڈھے کی کھدائی کا کام شروع کرے گی۔ جغرافیائی سروے آف انڈیا نے جو رپورٹ دی تھی اس میں زمین کے نیچے 520 میٹر کی کھدائی پر میٹل ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ کھدائی پانچ میٹر تک پہنچ چکی ہے لیکن وہاں میٹل کے بجائے قدرتی و دیگر چیزیں ملنا شروع ہوگئی ہیں۔ لکھنؤ یونیورسٹی کے قدیم تاریخی محکمے کے پروفیسر ڈی پی تیواری بتاتے ہیں ندیاں اپنے ساتھ ہی مٹی لیکر آتی ہیں۔ گنگا کا میدان پیلے رنگ کی مٹی سے بنا ہوا ہے۔ اس مٹی پر بساست کے چلتے وہاں کاربنک چیزیں جیسے نائٹروجن فاسفورڈ ،کیلشیم ملنے سے مٹی کا رنگ بدل کر بھورا ہوجاتا ہے اس لئے زمین کے نیچے جیسی مٹی ملتی ہے اس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ آخری قدرتی سطح ہے جس کے بعد انسانی سرگرمیاں ممکن نہیں۔ ای ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل پروین شریواستو نے کہا ڈونڈیا کھیڑا گاؤں میں سابق راجا راؤ رام بخش سنگھ کے قلعہ کے 4.5 میٹر کھدائی میں اب تک پہلی صدی قبل عیسیٰ مسیح کے وقت کی چیزیں مانی جارہی ہیں ، جو برتن اور کشیدہ کاری پتھر بتائے جاتے ہیں۔اے ایس آئی نے ایک نیا نقشہ تیار کیا ہے۔ فوٹو گرافی کی ہے۔ اس دوران کام روک کر دوسرے بلاک کی نشاندہی کرکے صفائی کرائی گئی ہے۔ کھدائی جاری رہے گی۔ امید جاری رہے گی۔ آخریہ ڈرامہ کب تک جاری رہے گا؟ ابھی تو پہلا سین ختم ہوا ہے۔ دیکھیں سونے کے خزانے کا خواب پورا ہوگا بھی یا نہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟