مسلم مذہبی پیشوا مولانا کلب صادق کی لائق تحسین پہل!

لوک سبھا چناؤ سے پہلے مسلم مذہبی پیشوا و آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر مولانا کلب صادق نے یہ کہہ کر سب کو چونکادیا ہے کہ نریندر مودی کا ماض�ئ گزشتہ کو بھلایا جا سکتا ہے۔ اس ہمت افزا بیان کے لئے ہم مولانا کلب صادق کی تعریف کرتے ہیں وہیں اس بیان سے تنازعہ ضرور کھڑا ہوگا کیونکہ آج تک کسی بھی مذہبی مسلم پیشوا نے اس طرح کے بیان دینے کی ہمت نہیں دکھائی۔مولانا صادق نے کہا کہ تمام اختلافات کے باوجود نریندر مودی سے بات چیت کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے۔ وہ خود کو بدلیں تو ہم بھی بدلنے کو تیار ہیں۔ آگے وہ کہتے ہیں دیش کے سامنے ہندو اور مسلمان کا اشو چھوٹا ہوتا ہے جبکہ چین اور پاکستان سے خطرہ بڑا اشو ہے۔ ایسے میں نریندر مودی بڑے سوالوں پر اپنا نظریہ سامنے رکھیں تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ جمعرات کو یونیٹی کالج کے دفتر میں ایک ہندی اخبارسے خاص بات چیت میں انہوں نے کہا کہ مودی ہندو ۔مسلم کا سوال چھوڑیں۔ غریبی ، کرپشن ، فرقہ پرستی اور نا انصافی پر اپنا ایجنڈا اور پلان سامنے رکھیں ،اس پرہم غور کرنے کو تیار ہیں۔ ویسے یہ پہلا موقعہ نہیں جب مولانا صادق نے اپنی مسلم لائن کے خلاف بولنے کی ہمت دکھائی ہے۔ تین طلاق ،فیملی پلاننگ، پرسنل لاء ،بندے ماترم جیسے اشو پر جب تب ایسا بولتے رہے ہیں۔ جس پر مسلم سماج بھناتا رہا ہے اور سوچنے پر مجبور بھی ہوتا ہے۔ صادق نے کہا کہ تاریخ میں ایسی تمام مثالیں ہیں جن کا ماضی تو اچھا نہیں رہالیکن بعد میں انہوں نے خود کو سدھار لیا۔ چنگیزی نے پہلے تو اسلام کے پرخچے اڑادئے لیکن بعد میں سدھر گئے۔ کیا ان کے ماضی گذشتہ کو نظر انداز نہیں کیا گیا؟ انہوں نے کہا جہاں تک مودی کی بات ہے صرف وعدوں اور بیانوں سے کام چلنے والا نہیں۔ مسلم لیڈر شپ پر سوال کھڑا کرتے ہوئے مولانا کلب صادق فرماتے ہیں کہ مسلم لیڈر شپ یا تو جاہل ہے یا بدعنوان۔ اسی سے مسلم برادری پچھڑ رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم سماج میں شادی و طلاق کے معاملوں میں عورتوں کے ساتھ بہت ناانصافی ہورہی ہے۔ زیادہ تر مذہبی پیشوا اپنی ذمہ داروں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ بات چیت میں وہ خود کو مسلم لیڈر شپ پر نکتہ چینی کرنے سے بھی نہیں روک پائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں شیعہ ہوں۔ شیعوں میں حضرت پیغمبر کے بعد حضرت علی کے پیغام کے معنی ہیں۔ حضرت علی ؑ نے کہا تھا کہ وہ ہر ایک سے دوستی کے لئے تیار ہیں لیکن جاہل اور بدعنوان شخص سے نہیں۔ افسوس ہے کہ آج کی زیادہ تر لیڈر شپ یا تو جاہل یا کرپٹ ہے۔ یہ پہلو مسلم برادری کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔لیڈر شپ صاف ستھرے ہاتھوں میں آئے تو قوم کی صورت کی بدل سکتی ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے شادی و طلاق کے معاملوں میں کہا مسلم سماج میں عورتوں کے ساتھ بہت ناانصافی ہوئی ہے۔ شادی کو اتنا مہنگا کردیا گیا ہے کہ تمام مسلم بچیاں اب شادی سے محروم ہورہی ہیں۔ طلاق کوتو مردوں کے ہاتھوں میں ناانصافی کا آسان اور سستا اوزار دے دیاگیا ہے۔ مولانا کی باتوں پر مسلم بھائیوں کو غورکرنا چاہئے لیکن جو مسلم لیڈر جمے بیٹھے ہیں وہ مولانا پر اب طرح طرح کے الزامات لگا کر ان کی باتوں کو سنجیدگی سے سوچنے کے بجائے ان کو ہوا میں اڑانے کی کوشش میں لگ جائیں گے۔ مولانا کے نظریات کا خیرمقدم ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟