آخر جانا ہی پڑا پون بنسل اور اشونی کمار کو
آخر کار اپنی اور ساتھ ہی سرکار کی تمام ٹال مٹول کے بعد ریل منتری پون کمار بنسل اور وزیر قانون اشونی کمار کو وزارت سے ہٹادیاگیا۔ ان دونوں وزرا کے استعفے تب ہوئے جب سونیا گاندھی نے خود وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر جاکر ان سے اس کے لئے کہا۔ رشوت لیکر پرموشن کرنے کے معاملے میں پھنسے ریل منتری پون کمار بنسل جمعرات کی رات وزیر اعظم کی رہائشگاہ گئے اور وہاں سے نکلتے ہی اپنے استعفے کی تصدیق کردی۔ لیکن کوئلہ گھوٹالے کی سی بی آئی جانچ رپورٹ میں چھیڑ چھاڑ کرنے کے سنگین الزام سے گھرے وزیر قانون اشونی کمار پی ایم کے سامنے اپنے بچاؤ کی دلیل دیتے رہے اس کے چلتے کچھ لمحوں کے لئے یہ فواہ پھیلی کے شاید اشونی کمار گئے اور دوسرے بچ گئے۔ آخر کار اشونی کمار کے بھی استعفے کی تصدیق ہوگئی۔ یہ پہلی بار ہے جب کرپشن کے الگ الگ معاملوں سے گھرے دو مرکز ی وزرا کو ایک ساتھ استعفیٰ دینا پڑا۔ اپوزیشن دونوں کا استعفیٰ مانگ رہی تھی اور اس نے اس وجہ سے پچھلے دنوں پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن بھی چلنے نہیں دیا۔ اس بائیکاٹ کے چلتے سونیا گاندھی کافوڈ سکیورٹی بل بھی پیش نہیں ہوسکا۔ ان دونوں کے استعفوں کے بعد کانگریس اور سرکار دونوں نے راحت کی سانس لی ہوگی لیکن اس کارروائی پر کچھ سوالیہ نشان ضرور لگتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں نوک جھونک کے بعد سونیا گاندھی نے پہلے تو دادا گیری دکھائی پھر گاندھی گیری دکھاتے ہوئے سشما سوراج کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کی۔ سونیا چاہتی تھیں کہ کسی طرح سے ہاؤس کی کارروائی چلے تاکہ ان کا ڈریم بل جسے گیم چینجر بھی کانگریس کہہ رہی تھی ،پاس ہوجائے۔ لیکن سشما نے صاف کہہ دیا کے پہلے دونوں وزرا اور وزیر اعظم کا استعفیٰ ہو۔ اگر وزرا کا استعفیٰ ہوجاتا ہے تو پی ایم کے استعفے پر زور نہیں دے گی لیکن تب سرکار اپوزیشن کی بات نہیں مانیں اور نتیجتاً سونیا گاندھی کا فوڈ سکیورٹی بل اور راہل گاندھی کا ڈریم بل اراضی تحویل رہ گئے۔ممکن ہے کانگریس اعلی کمان یہ اشارہ دینا چاہتا ہو کہ وہ اپوزیشن کے دباؤ میں استعفے نہیں لے رہا ہے۔ جب پانی سر سے گذر گیا تھا اور حقائق چرمرا گئے۔ کرناٹک میں کانگریس جیت گئی تب جاکر یہ استعفے دئے گئے۔ کانگریس جب یوپی اے کی چوتھی سالگرہ کے موقعے پر ہونے والی تقریب 22 مئی کو ہے۔ اس کے سامنے جشن کے ساتھ ساتھ آتم چنتن کی بھی تمام وجوہات موجود رہیں گی۔ آنے والے عام چناؤکو دیکھتے ہوئے بھی یوپی اے کے سامنے تمام چنوتیاں ہیں۔ سب سے بڑی چنوتی ہے اس کے پاس بس ایک ہی سال بچا ہے جن میں اسے ایک طرف کرپشن و مہنگائی جیسے اشوز کو لیکر اس کی خفت ہوئی تھی اس کو بہتر بنانا ہے۔ وہیں اپنے ادھورے کاموں کو بھی پورا کرنا ہوگا۔ اگر بچے ہوئے ایک سال میں یہ کام مکمل نہیں ہوپائے تو عام چناؤ میں مقابلہ اور سخت ہوجائے گا۔ یوپی اےI- نے اپنی صاف ستھری ساکھ اور ٹھیک ٹھاک گورننس کی بات کی جاتی ہے یوپی اے کے لئے تنازعوں اور گھوٹالوں کے چلتے دوسری میعاد کسی برے سپنے سے کم نہیں رہی۔ یوپی اے II- کے سرکار کے پہلے سال کے اندر ہی یوپی اے سرکار تنازعوں میں گھر گئی اور اس کے کئی سرکردہ وکٹ گئے۔ پہلا وکٹ سریش کلماڑی کا گرا۔انہیں کامن ویلتھ گیمز گھوٹالے کی وجہ سے تہاڑ جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ ساتھ ہی کمیٹی کا بھاری بھرکم عہدہ بھی گنوانا پڑا۔ دوسرا وکٹ مہاراشٹر کے وزیر اعلی اشوک چوہان کا گرا جو آدرش گھوٹالے کی وجہ سے کرسی سے الگ ہوئے۔ پھر آیا اے راجہ کا نمبر۔ ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے کی وجہ سے ٹیلی کام وزارت تو راجہ کو گنوانی ہی پڑی ساتھ ہی تہاڑ جیل بھی جانا پڑا۔ ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے سے وابستہ کچھ لوگوں کے اور دیاندھی مارن کی خاندانی کمپنیوں کے لین دین کا انکشاف ہونے کے بعد مارن کو بھی وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ ہماچل پردیش میں ایک زمین سے وابستہ تنازعے میں عدالت کے ایک فیصلے کی وجہ سے ویر بھدر سنگھ کو بھی مرکزی وزیر کی کرسی گنوانی پڑی لیکن اس کے باوجود ویر بھدر کی رہنمائی والی کانگریس نے ہماچل اسمبلی چناؤ میں جیت حاصل کرلی جس کی وجہ سے انہیں وزیر اعلی کی کرسی مل گئی۔ کوئلہ گھوٹالے معاملے میں اپنی بھائی کی کمپنی کے نام کی سفارش کا لیٹر پی ایم اے کو لکھنے کے الزام میں وزیر سیاحت سبود کانت سہائے کو کرسی چھوڑنے پڑی اور اب پون بنسل اور اشونی کمار کا نمبر آگیا ہے اس لئے جہاں ان دونوں وزرا کا استعفیٰ صحیح سمت میں صحیح قدم مانا جائے گا لیکن کانگریس کو ابھی لمبا راستہ طے کرنا ہے جو چیلنج بھرا ہے۔ پچھلے دنوں میں نے اسی کالم میں لکھا تھا کہ ان دونوں کے استعفے ٹل سکتے ہیں آخر کار انہیں استعفیٰ دینا ہی پڑا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں