بھارت کو چوکس رہنا ہوگا نواز شریف سے کرشمے کی امید نہ کریں
پاکستانی سیاست کا دور پورا ہوگیا ہے۔ تاریخ ایک طرح سے دوہرارہی ہے12 اکتوبر 1999ء کو کارگل جنگ کے بعد اس وقت پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے اقتدار پر فائض وزیر اعظم نواز شریف کو برخاست کرکے انہیں پہلے جیل میں ڈالا اور پھر بعد میں پاکستان چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اب2013ء مئی میں پورا چکر گھوم گیا ہے۔ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ پرویز مشرف اپنے فارم ہاؤس میں نظر بند ہیں۔ ممکن ہے نواز شریف بھی مشرف کو اب پھر سے محفوظ راستہ دیں اور مشرف پھر پاکستان چھوڑیں۔ خیال رہے کہ نواز شریف کو سری لنکا سے آرہے مشرف کے طیارے کا اغوا کرانے اور دہشت گردی پھیلانے کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں انہیں خاندان کے 40 افراد کے ساتھ سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ عرش سے فرش پر آنے اور موت کی سزا سے بچنے کے بعد نوام شریف تیسری مرتبہ پاکستان میں اقتدار سنبھال رہے ہیں۔1976ء میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ذریعے شریف خاندان کے فولادی کاروبار کو قومیانے کے واقعہ نے انہیں سیاست میں آنے پر مجبور کردیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کے ممبر بنے اور پھر پنجاب صوبے کے وزیر اعلی ۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ حالانکہ گزری ایک دہائی میں ان کی زندگی میں زبردست اتار چڑھاؤ آئے لیکن پھر وزیر اعظم بن کر انہوں نے دکھا دیا کہ جیل اور جلا وطنی الگ تھلگ پڑنا صرف اقتدار کا کھیل ہے ۔سیاست میں یہ کسی کو ختم ہوا نہیں ماننا چاہئے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر ہونے کی امید ہے۔ نواز شریف نے چناؤ منشور میں وعدہ کیا ہے کہ لاہورڈکلریشن کے مطابق انہیں بھارت کے ساتھ کشمیر ،سیاچن اور آبی معاملوں سے متعلق سارے تنازعات سلجھائیں گے۔ جیت کے بعد نواز نے کہا بھارت سے اچھے رشتے ان کی پہلی ترجیح ہوگی۔ انہوں نے نہ صرف وزیر اعظم منموہن سنگھ کو فون کیا بلکہ حلف برداری میں شامل ہونے دعوت بھی دے دی۔ انہوں نے وعدہ کیا کارگل کی سچائی کو بھی سامنے لائیں گے۔ ایک انٹرویو میں ممبئی حملے میں پاکستانی فوج کی سازش کو مانتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں کچھ لوگ ہیں جو نہیں چاہتے بھارت سے رشتوں میں بہتری آئے۔ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی ہمیشہ سے بھارت سے رشتوں کے خلاف رہی ہے۔ نواز شریف کا ان دونوں سے ہمیشہ سے ٹکراؤ رہا ہے۔ ویسے بھارت کو اتنا بھی خوش نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان کے اندرونی حالات اتنے خراب ہیں کہ نواز شریف سے کسی کرشمے کی امید نہیں کرنی چاہئے۔ حالانکہ نواز شریف کا اقتدار میں ہونا عمران خاں سے زیادہ بہتر ہے۔ ماہرین کے مطابق شریف کی ترجیح میں ملک کے اندرونی حالات، افغانستان اور فوج سے وابستہ اشو کو سلجھانا ہوگا۔ فوج سے انہیں چنوتی مل سکتی ہے۔ فوج کے ساتھ پہلے بھی ان کی ان بن رہی ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان کھلی سرحدوں کے سبب طالبان کا اثر بڑھا ہے۔ بھارت کے ساتھ نواز شریف نے بہتر تعلقات بنانے کی کوشش کی ہے لیکن موجودہ حالات میں پہلے کے مقابلے فرق ہے ۔ اب پاکستان کی ترجیحات میں بھارت تھوڑا فی الحال نظر آرہا ہے۔ خستہ معیشت اور کرپشن سے پریشان پاکستانی عوام کو ان سے بہت امیدیں ہیں اور انہیں ان پر خاص توجہ دینی ہوگی۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کی تعلقات بگڑے ہوئے ہیں۔ امریکی صدر براک اوبامہ نے پاکستان کی نئی سرکار کے ساتھ اچھے رشتوں کی امید جتائی ہے۔ اوبامہ نے ایتوار کو ایک بیان جاری کرکے کہا پاکستان میں انتخابات کے بعدآنے والی سرکار کے ساتھ میری انتظامیہ پاکستان کی عوام کو پائیدار محفوظ اور خوشحال مستقبل دینے کی حمایت میں برابر ساجھیداری جاری رکھے گی۔ حالانکہ اس کے باوجود امریکہ میں قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ کیا پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ جاری رکھے گا؟ نواز شریف نے چناؤ مہم کے دوران امریکہ کی کٹر پسندی کے خلاف جاری لڑائی سے پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی بات کہی تھی۔ نواز شریف طالبان کے تئیں نرم رخ بھی اختیار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نواز شریف پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں بھی سخت رویہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے امریکی ڈرون حملے پاکستان کی سرداری کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان میں میڈیا ذرائع یعنی ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں بھی پاکستانی چناؤ کی تعریف ہوئی ہے اور اس بات پر تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ آخر اب اگلی پاکستانی سرکار کس حد تک امریکہ کے ساتھ مل کر کٹر پسندوں کے خلاف جنگ میں مددگار ثابت ہوگی؟ نواز کے سامنے بہت سے چیلنج ہیں دیکھیں کیا ہوتا ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں