کرناٹک چناؤ میں نہ راہل گاندھی جیتے اور نہ ہی نریندر مودی ہارے

کرناٹک اسمبلی چناؤ میں بھلے ہی گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی سیدھے طور پر کوئی لینا دینا نہ ہو لیکن جیسی امید تھی اگر کرناٹک میں بھاجپا ہاری تو کانگریس اس ہار کا ٹھیکرا نریندر مودی پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہی ہوا بھاجپا کے وہاں چناؤ ہارتے ہی کانگریس نے ایک ساتھ ایک آواز میں مودی پر حملہ بول دیا۔ کوئی وزیر کہہ رہا ہے کہ مودی کا جہاز کرناٹک میں ڈوب گیا تو کوئی انہیں ڈوبتا ستارہ کہہ رہا ہے اور کوئی کہہ رہا ہے کہ گجرات کے باہر مودی زیرو ہیں۔ جیت کی خوشی میں کانگریس سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ تو یہاں تک کہہ گئے کہ گجرات کے باہر انہیں کوئی جانتا تک نہیں۔ کانگریس نے کرناٹک میں اپنی جیت کا سہرہ یووراج راہل گاندھی کے سر پر باندھا ہے۔ اصل میں لگتا یہ ہے کہ کانگریس نے پہلے ہی طے کرلیا تھا کہ مودی پر اس طرح حملہ کرنا ہے جس سے یہ سندیش جائے کہ کرناٹک میں بھاجپا کی ہار کے ساتھ ہی مودی کے حوصلے کو بھی پست کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ آنے والے وقت میں مودی اتنی ہمت سے چناؤ مہم میں نہ اترسکیں۔ انہیں میدان میں آنے سے پہلے ہی ذہنی طور پر مایوس کردیا جائے۔ دراصل کانگریس کو اگر بھاجپا کے کسی لیڈر سے خوف ہے تو وہ مودی ہیں۔ وہ جانتی ہے کہ اگر مودی کے نام کا سکہ چل گیا تو پھر کانگریس کی قبر کھود سکتے ہیں اس لئے جس طرح بھی ممکن ہو مودی کے حوصلے کمزور کرتے رہو۔ اور راہل گاندھی کی پبلسٹی بھی اس طرح کرو کے وہ مودی کے سامنے اپنی کو زیادہ طاقتور دکھا سکیں۔ اس طرح کرناٹک اسمبلی چناؤ نتائج کا سہرہ کانگریس راہل گاندھی کو دے رہی ہے۔وزیر اعظم نے بھی جیت کا سہرہ راہل گاندھی کے سر باندھا ہے۔ وزیر پالیمانی امور کملناتھ نے کہا ہے کہ اس ہار کے ساتھ بھاجپا کا اصلی چہرہ سامنے آگیا ہے۔ پارٹی کے اسٹار کمپینر نریندر مودی کی پول کھل گئی ہے۔ کرناٹک میں مودی کا جادو نہیں چلا لیکن وہاں مودی کی مقبولیت کام نہ آئی اور بھاجپا وہیں ختم ہوگئی۔ مرکزی وزیر کپل سبل نے کہا مودی خود ہی بنی بنائی ایک سنستھا ہیں وہ ہمیشہ خود کو ہیرو کہتے ہیں کرناٹک کی جنتا نے انہیں زیرو ثابت کردیا۔ اسی طرح کے خیالات سلمان خورشید نے بھی ظاہر کئے۔ کرناٹک کی حقیقت تو یہ ہے کہ اسمبلی چناؤ میں نہ راہل گاندھی جیتے اور نہ نریندر مودی ہارے۔ کرناٹک میں گجرات میں تیسری بار جیت درج کرانے کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ جب پردیش کے باہر مودی کو اپنا جلوہ دکھانے کو ملا۔ مودی نے 37 سیٹوں پر چناؤ مہم میں حصہ لیا لیکن اس میں آدھی سے کم سیٹوں پر پارٹی کو کامیابی ملی۔ راہل نے60 اسمبلی حلقوں کا دورہ کیا لیکن ان میں سے کئی سیٹوں پر کانگریس ہاری۔ بھاجپا کے سابق وزیر سدا نند گوڑا پہلے دعوی کررہے تھے کہ پارٹی کو تقریباً 65 سیٹیں اور کانگریس کو80 سیٹیں مل سکتی ہیں لیکن بعد میں وہ بھی مان گئے کہ بھاجپا کی حالت پتلی ہے۔ انہوں نے مانا کہ یدی یروپا شری رملو کے جانے سے پارٹی کو نقصان ہوا۔ پارٹی کے یہ امید تھی کہ اس کے مقبول لیڈر نریندر مودی شاید کرناٹک میں کوئی معجزہ دکھائیں اور بازی پلٹ لیں۔ لیکن حالات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ مودی کا کرشمہ بھی بھاجپا کو نہیں بچا پایا۔ پہلے ہی اتنا غصہ تھا کہ مودی کی تقریر بھی اس کی بھرپائی نہ کرپائی۔ کرناٹک میں ملی کراری ہار کے بعد بھاجپا پارلیمانی بورڈ نے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے نتیجہ نکالا کے سرکار کی نان پرفارمینس ، یدی یروپا کی بغاوت اور وہاں سیاسی اتھل پتھل اور آخر تک جاری گروپ بندی نے ریاست میں پارٹی کی لٹیا ڈبودی۔ نتائج بتاتے ہیں کہ بھاجپا کی سرکار کو کرپشن سے زیادہ خراب گورننس ،بدانتظامی اور کام نہ ہونا ہار کا سبب بنا۔ سرکار پہلے پانچ برسوں میں اچھے انتظامیہ کے نام پر لوگوں کے توقع پر کھرا اترنے میں ناکام رہی۔ یہی وجہ ہے خاص کر شہروں میں بھاجپا کی کراری ہار ہوئی۔ دراصل اشو نہ مودی تھا نہ راہل گاندھی۔ کرپشن اور گورننس کے اشو میں یہ فرق ہے کہ کرپشن کا اثر تھوڑا دیر سے اوردرپردہ طور سے دکھائی پڑتا ہے لیکن گورننس کا عام لوگوں پر سیدھا اور فوری اثر ہوتا ہے۔ ایسے میں اچھی انتظامیہ ضروری اشو بن جاتا ہے۔ حالانکہ آگے چل کر دیکھیں گے یہ دونوں اشو ایک ہی سکے کے دو پہلو ہوجائیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟