دگوجے سنگھ کی سپریم کورٹ کو نصیحت :حد میں رہیں

اپنے بیانوں کے چلتے اکثر تنازعوں میں چھائے کانگریس سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ نے اس بار دیش کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ عدالت کے ریمارکس کے بعد ایک طرف تو سرکار کو قانون منتری کا استعفیٰ لینا پڑا لیکن دگوجے سنگھ نے سب سے بڑی عدالت کو ہی حد میں رہنے کی نصیحت دے ڈالی۔ سپریم کورٹ کے ذریعے سی بی آئی کو پنجرے میں بند طوطا کہنے پر اعتراض جتاتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے تبصروں سے قومی خدمات کی اہمیت گھٹتی ہے۔ دگوجے سنگھ نے کہا سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو پنجرے کا طوطا بتایا تو بنگلورو میں سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹرمنل نے خفیہ بیورو یعنی آئی بی کو چوزا کہہ دیا۔ اب عام لوگوں سے میرا یہ سوال ہے کیا ایسا کرکے ہم نے قومی اداروں کو چھوٹا نہیں کردیا ہے؟ میں آپ کا جواب چاہتا ہوں۔ کوئلہ گھوٹالہ کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاعوامی نمائندے جنتا کو جوابدہ ہوتے ہیں کورٹ کے تئیں نہیں۔ کورٹ کو لگتا ہے کہ وہ کولگیٹ رپورٹ کی جان ہی بدل گئی ہے تو انہیں حکم دینا چاہئے تھا ریمارکس کی بنیاد پر کسی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ سپریم کورٹ کے بیان کے خلاف دگوجے سنگھ کے تبصرے سے کانگریس نے کنارہ کرنا ہی بہتر سمجھا، جیسا کہ وہ اکثر کرتی آئی ہے۔ یہ اچھا ہوا ہے کہ کانگریس نے خود کو اپنے سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ کے اس بیان سے الگ کرلیا کہ سی بی آئی کو پنجرے میں بند طوطا بتانا اس ادارے کو کمزور کردینا جیسا ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے کہ کانگریس سکریٹری جنرل کو اس سی بی آئی کی ساکھ کی پرواہ ہے جس کے بھروسے پر بٹا لگا ہوا ہے اور جسے ہر کوئی سرکار کی کٹھ پتلی مانتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ سی بی آئی کے پنجرے میں طوطا نہیں کہتا تو کیا جانچ ایجنسی کی ناک اونچی ہوجاتی؟ کیا دگوجے کو یہ نہیں معلوم کے سی بی آئی نے کوئلہ گھوٹالے کی جانچ میں چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں پہلے حلف نامے میں لیپا پوتی کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ اگر سپریم کورٹ نے چوکسی کا ثبوت نہیں دیا ہوتا تو سی بی آئی اپنی جانچ رپورٹ میں چھیڑ چھاڑ کئے جانے کے باوجود اطمینان سے بیٹھی رہتی۔ یہ ایک سچائی ہے کہ سی بی آئی نے اپنے دوسرے حلف نامے میں بڑی عدالت کے سامنے یہ ہی دلیل دی تھی کہ جانچ رپورٹ کے کچھ حصے ہٹانے کے بعدہی ان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس کے برعکس عدالت نے یہ پایا کہ ان حصوں کو ہٹانے سے جانچ رپورٹ کا بنیادی مقصد ہی بدل گیا ہے۔ یہاں ہم یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا تبصرہ سی بی آئی ڈائریکٹر رنجیت سنہا کے ذریعے داخل حلف نامے پر آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سابق مرکزی وزیر قانون اشونی کمار پی ای اور کوئلہ وزارت کے کچھ حکام نے کول بلاک الاٹمنٹ کی جانچ رپورٹ میں تبدیلی کی تھی۔ دگوجے سنگھ نے کیگ پر بھی رائے زنی کی ہے۔ انصاف دلانے والے اداروں پر تبصرہ عام لوگوں کے درمیان سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ایسے میں دگوجے سنگھ کی طرف سے ایسے ریمارکس کا سامنے آنا جو کسی شخص یا ادارے کو ٹھیس پہنچاتا ہو، کسی بھی نقطہ نظر سے اس کو صحیح نہیں مانا جاسکتا۔ ہماری جمہوریت و پورا سسٹم عدلیہ، آئین سازیہ اور انتظامیہ کے آپسی تال میل پر ٹکا ہوا ہے۔ لیکن اس طرح کے تبصرے پورے سسٹم کو ہی ہلا دیتے ہیں اور سسٹم کی بنیاد پر چوٹ کرتے ہیں۔ تنقید سے کہاں معاملے کی سارا مطلب ہی بدل جاتا ہے۔ اس باریک ریکھا کو کانگریس پارٹی اور خاص کر اس کے سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ کو سمجھنا ہوگا کہ ہم نے اپنے پڑوسی ملک پاکستان کو دیکھا ہے کہ کس طرح انتظامیہ اور عدلیہ میں ٹکراؤ نے دیش کو ہی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بلا شبہ یہ کافی نہیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سی بی آئی پر تلخ تنقید پر دگوجے سنگھ نے جو رد عمل ظاہرکیا ہے اس سے کانگریس نے پلڑا جھاڑ لیا ہے۔ کیونکہ اس کی قیادت والی مرکزی حکومت نہ تو جمہوریت اداروں کے وقار کے تئیں سنجیدہ نظر آتی ہے اور ان کے وقار کے تئیں سپریم کورٹ کے حکم پر سی بی آئی کی مختاری کی راہ تلاش کرنے کے لئے ایک وزارتی گروپ قائم کردیا ہے۔ لیکن اتنے بھر سے اس جانچ ایجنسی کی مختاری کے تئیں یہ قدم کافی نہیں مانا جاسکتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟