29 سال بعد بھی 84ء دنگا متاثرین انصاف مانگنے پر مجبور

کڑکڑ ڈوما کورٹ کے ذریعے سابق کانگریسی ایم پی سجن کمار کو بری کرنے کے بعد دہلی سمیت دیش بھر میں سکھوں میں کافی بھاری ناراضگی پائی جاتی ہے۔ سکھ فرقہ روز راجدھانی میں دھرنا اور مظاہرے کرکے انصاف مانگ رہا ہے۔ 1984ء میں سکھ مخالف دنگوں میں متاثرہ اب سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کرکے قصورواروں کو سزا دلانے کی مانگ کررہے ہیں۔ تین دہائی بعد بھی سکھ فرقے کو انصاف نہیں مل پایا۔ سکھ تنظیموں کا کہنا ہے کہ عدالت سے انصاف ملنے کی امید میں ہم 29 سال انتظار کرتے رہے لیکن 84ء میں ہزاروں سکھوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ عدالت ثبوتوں کی کمی کے سبب ملزمان کو چھوڑ رہی ہے۔ تین دہائی میں مرکزی سرکار اور انتظامیہ کیا کرتی رہی ہے؟ وہ دنگوں میں شامل لوگوں کے خلاف سزا دلانے لائق ثبوت کیوں نہیں عدالت میں پیش کرتی؟ آل انڈیا سکھ کانفرنس( ببر) کے چیئرمین گرچرن سنگھ ببر نے اپنی ناراضگی اور درد کا ان الزام میں اظہارکیا ہے۔ ببر کا کہنا ہے کہ انصاف نہ ملنے تک سکھ سماج چپ نہیں بیٹھے گا۔ سینکڑوں سکھ راجگھاٹ سے سپریم کورٹ تک مارچ کررہے تھے ۔بھاری پولیس بندوبست کی وجہ سے پولیس نے مظاہرین کو شہید پارک پر ہی روک لیا۔ مظاہرین کے ایک نمائندہ وفد کو پولیس افسر اپنی گاڑیوں میں بٹھا کر سپریم کورٹ لے گئے۔ نمائندہ وفد کی قیادت سردار گرچرن سنگھ ببر و دنگوں کی ودھوا شریمتی ورجن کور اور شریمتی گورمیت کور اور شریمتی کوہلی کور نے کی۔ تنظیم کا کہنا ہے ہماری خوفناک ٹریجڈی اور اس کا احساس کرنے کے بعد براہ کرم فوری انصاف کریں کیونکہ نومبر84ء قتل عام پر سپریم کورٹ کے اب تک چپ رہنے سے دیش کے عدلیہ نظام کے تئیں ایک پوری قوم کے بھروسے کی چولیں ہل گئی ہیں۔ اس کام کو انجام دینے کے لئے اس وقت کے داخلہ سکریٹری ایم کے بلّی دہلی کے گورنر پی جی گوئی ، دہلی پولیس کمشنر سبھاش ٹنڈن، سابق مرکزی وزیر جگدیش ٹائٹلر کی سجن کمار نے فساد میں اہم رول نبھایا تھا اور یہ خوفناک حرکت انجام دی گئی۔ قتل کانڈ کی کمان دہلی کے اس وقت کے پولیس کمشنر سبھاش ٹنڈن نے اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی جس نے دہلی کے اس وقت کے سبھی بڑے پولیس افسروں کے ساتھ مل کر دہلی میں پانچ ہزار بے قصور سکھوں کی لاشوں کو ٹھکانے لگادیا تھا۔ آل انڈیا سکھ کانفرنس نے کہا کہ ہماری سپریم کورٹ سے مودبانہ اپیل ہے کہ عدالت فوراً انصاف کرے۔ ہم سکھ تنظیموں کی مانگ کی پوری حمایت کرتے ہیں۔ وہیں ہم سپریم کورٹ سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ خود ہی اس سنگین مسئلے پر نوٹس لے۔ گجرات دنگوں میں تو عدالت نے آدھا درجن معاملوں کی جانچ کرا لی ہے تو اس سے کہیں بڑے دنگے میں اب تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا؟ اگر وہاں بھی اقلیتیں تھیں تو یہاں بھی تو اقلیت ہی ہے پھر امتیاز کیوں؟
(انل نریندر)کڑکڑ ڈوما کورٹ کے ذریعے سابق کانگریسی ایم پی سجن کمار کو بری کرنے کے بعد دہلی سمیت دیش بھر میں سکھوں میں کافی بھاری ناراضگی پائی جاتی ہے۔ سکھ فرقہ روز راجدھانی میں دھرنا اور مظاہرے کرکے انصاف مانگ رہا ہے۔ 1984ء میں سکھ مخالف دنگوں میں متاثرہ اب سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کرکے قصورواروں کو سزا دلانے کی مانگ کررہے ہیں۔ تین دہائی بعد بھی سکھ فرقے کو انصاف نہیں مل پایا۔ سکھ تنظیموں کا کہنا ہے کہ عدالت سے انصاف ملنے کی امید میں ہم 29 سال انتظار کرتے رہے لیکن 84ء میں ہزاروں سکھوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ عدالت ثبوتوں کی کمی کے سبب ملزمان کو چھوڑ رہی ہے۔ تین دہائی میں مرکزی سرکار اور انتظامیہ کیا کرتی رہی ہے؟ وہ دنگوں میں شامل لوگوں کے خلاف سزا دلانے لائق ثبوت کیوں نہیں عدالت میں پیش کرتی؟ آل انڈیا سکھ کانفرنس( ببر) کے چیئرمین گرچرن سنگھ ببر نے اپنی ناراضگی اور درد کا ان الزام میں اظہارکیا ہے۔ ببر کا کہنا ہے کہ انصاف نہ ملنے تک سکھ سماج چپ نہیں بیٹھے گا۔ سینکڑوں سکھ راجگھاٹ سے سپریم کورٹ تک مارچ کررہے تھے ۔بھاری پولیس بندوبست کی وجہ سے پولیس نے مظاہرین کو شہید پارک پر ہی روک لیا۔ مظاہرین کے ایک نمائندہ وفد کو پولیس افسر اپنی گاڑیوں میں بٹھا کر سپریم کورٹ لے گئے۔ نمائندہ وفد کی قیادت سردار گرچرن سنگھ ببر و دنگوں کی ودھوا شریمتی ورجن کور اور شریمتی گورمیت کور اور شریمتی کوہلی کور نے کی۔ تنظیم کا کہنا ہے ہماری خوفناک ٹریجڈی اور اس کا احساس کرنے کے بعد براہ کرم فوری انصاف کریں کیونکہ نومبر84ء قتل عام پر سپریم کورٹ کے اب تک چپ رہنے سے دیش کے عدلیہ نظام کے تئیں ایک پوری قوم کے بھروسے کی چولیں ہل گئی ہیں۔ اس کام کو انجام دینے کے لئے اس وقت کے داخلہ سکریٹری ایم کے بلّی دہلی کے گورنر پی جی گوئی ، دہلی پولیس کمشنر سبھاش ٹنڈن، سابق مرکزی وزیر جگدیش ٹائٹلر کی سجن کمار نے فساد میں اہم رول نبھایا تھا اور یہ خوفناک حرکت انجام دی گئی۔ قتل کانڈ کی کمان دہلی کے اس وقت کے پولیس کمشنر سبھاش ٹنڈن نے اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی جس نے دہلی کے اس وقت کے سبھی بڑے پولیس افسروں کے ساتھ مل کر دہلی میں پانچ ہزار بے قصور سکھوں کی لاشوں کو ٹھکانے لگادیا تھا۔ آل انڈیا سکھ کانفرنس نے کہا کہ ہماری سپریم کورٹ سے مودبانہ اپیل ہے کہ عدالت فوراً انصاف کرے۔ ہم سکھ تنظیموں کی مانگ کی پوری حمایت کرتے ہیں۔ وہیں ہم سپریم کورٹ سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ خود ہی اس سنگین مسئلے پر نوٹس لے۔ گجرات دنگوں میں تو عدالت نے آدھا درجن معاملوں کی جانچ کرا لی ہے تو اس سے کہیں بڑے دنگے میں اب تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا؟ اگر وہاں بھی اقلیتیں تھیں تو یہاں بھی تو اقلیت ہی ہے پھر امتیاز کیوں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!